بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا فطرہ کی رقم مسجد میں دے سکتے ہیں؟ 


سوال

کیا فطرہ کی رقم مسجد میں دے سکتے ہیں؟ 

جواب

صدقہ الفطر کا مصرف وہ ہی ہے جو زکاۃ کا مصرف ہے اور زکاۃ کے مصارف سات ہیں :  فقیر، مسکین، عامل ، رقاب، غارم، فی سبیل اللہ اور ابن السبیل۔

فقیر وہ شخص ہے جس کے پاس کچھ مال ہے، مگر اتنا نہیں کہ نصاب کو پہنچ جائے۔

مسکین وہ شخص ہے جس کے پاس کچھ نہ ہو، یہاں تک کہ وہ کھانے اور بدن چھپانے کے لیے بھی لوگوں سے سوال کا محتاج ہو۔

عامل وہ ہے جسے اسلامی حکومت کے حاکم  نے زکاۃ اور عشر وصول کرنے کے لیے مقرر کیا ہو، اس کو بھی زکاۃ دی جا سکتی ہے۔

رِقاب سے مراد ہے غلامی سے گردن رہا کرانا۔

غارم سے مراد مَدیون (مقروض) ہے یعنی اس پر اتنا قرض ہو کہ اسے نکالنے کے بعد نصاب باقی نہ رہے۔

فی سبیل اللہ کے معنی ہیں راہِ خدا میں خرچ کرنا، اس کی چند صورتیں ہیں مثلاً کوئی شخص محتاج ہے کہ جہاد میں جانا چاہتا ہے اور اس کے پاس رقم نہیں تو اس کو  زکاۃ دے سکتے ہیں۔

ابن السبیل سے مراد مسافر ہے، مسافر کے پاس اگر مال ختم ہو جائے تو اس کو بھی زکاۃ  کی رقم دی جا سکتی ہے اگرچہ اس کے پاس اس کے اپنے وطن میں مال موجود ہو۔

لہذا ان سب کو صدقہ الفطر دیا جا سکتا ہے۔

مسجد میں صدقہ فطر کی رقم نہیں دی جا سکتی۔ البتہ وہاں مدرسہ قائم ہو اور اس میں مستحق طلبہ موجود ہوں تو ان پر صرف کیا جاسکتاہے۔  فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144008201518

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں