ہمارے علاقے میں ایک کمپنی ہے جس کا اصول یہ ہے کہ گاڑی خریدنے کا امیدوار کوئی بھی گاڑی ان کے پاس لاتاہے، وہ گاڑی کی قیمت لگا کر اصل مالک کو پیسے دے کر گاڑی کے کاغذات اپنے پاس رکھ لیتے ہیں، اور پھر یہی گاڑی 8 فیصد کے منافع سے 7 سالوں کے لیے قسطوں پہ دے دیتے ہیں۔ یہ سود کے زمرے میں آتا ہے یا نہیں؟ یعنی گاڑی جو بھی ان سے لیتا ہے اس بندے کو پہلے سے یہ پتا ہوتاہے کہ گاڑی کی اصل قیمت کمپنی ادا کرکے پھر کمپنی قسطوں پر 8 فیصد منافع لے گی!
اس طرح کرنا جائز نہیں کہ ایک آدمی پہلے خود مالک سے گاڑی کا سودا کرکے قیمت مذکورہ کمپنی سے دلواکر ان کے پاس کاغذات رکھ کر قسطوں پر خریدے ۔
البتہ کمپنی اگر ازخود گاڑی خرید کر اس کی قیمت ادا کرکے اپنے قبضہ (مع ضمان) میں لینے کے بعد قیمت متعین کرکے قسطوں پر فروخت کردے اور قسطوں کی تاخیر میں اضافی رقم نہ لی جاتی ہو تو ایسی صورت میں قسطوں پر کاروبار کرنے کے حوالہ سے جائز ہونے کی شرائط پائی جانے کی صورت میں یہ جائز ہوگا۔فقط واللہ اعلم
قسطوں پر کاروبار کے شرعی حکم کی تفصیل کے لیے درج ذیل لنک ملاحظہ کریں:
فتوی نمبر : 144012201736
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن