بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

وظائف میں اجازت لینے کا حکم


سوال

عموماً لوگ کسی کو کوئی وظیفہ بتانے کے ساتھ یہ بھی کہتےہیں کہ مجھے اس کی اجازت ہے یا اذن ہے ۔ میرا سوال یہ ہے کہ یہ اجازت یا اذن کیا ہے؟ اور اس کا شرعی مقام کیا ہے؟

جواب

کسی وظیفہ یا عمل کے پڑھنے کے لیے کسی شیخ کی اجازت شرعاً لازم یا ضروری نہیں، بدونِ  اذن بھی مستند وظائف اور اعمال درست ہیں، البتہ بسااوقات پڑھنے والے کو ان اعمال ووظائف سے متعلق بزرگوں کے تجربات کی روشنی میں اپنے احوال کے لیے اوراد کی مناسب تشخیص،   مفیدہدایات، فیض کا حصول اورکلمات وغیرہ کی اصلاح مقصود ہوتی ہے، اس لیےبعض اعمال ووظائف میں بزرگوں سے راہ نمائی لی جاتی ہے،ا سی کو ’’اذن‘‘  اور’’ا جازت‘‘ کہتے ہیں ۔چنانچہ حکیم الامت رحمہ اللہ  اسی نوعیت کے سوال کے جواب میں لکھتے ہیں :

’’ عملیات میں اجازت دینے کی حقیقت اور اس کا فائدہ:

سوال کیا گیا کہ عملیات تعویذات میں اجازت کی کیا ضرورت ہے؟

فرمایا: عملیات دو قسم کی ہیں: ایک تو وہ جن کا اثر دنیاوی ضرورتوں کا پورا ہونا ہے۔ اس میں اجازت کا مقصد تقویتِ خیال (یعنی خیال کو مضبوط کرنا) ہے؛  کیوں کہ رواج اور عادت کی وجہ سے پڑھنے والے کو یہ اطمینان ہوجاتا ہے کہ اجازت کے بعد خوب اثر ہوگا۔ اور اثر ہونے کا دارو مدار قوتِ خیال پر ہے اور اجازت وغیرہ قوتِ خیال کا ذریعہ ہوجاتا ہے۔ اس کے علاوہ اجازت دینے والے کی توجہ بھی اس کی طرف ہوجاتی ہے،  اس سے اس کے خیال کے ساتھ ایک دوسرا خیال مل جاتا ہے جس سے عمل پڑھنے والے کے خیال کو تقویت پہنچتی ہے۔

دوسرے وہ اعمال جن کا ثمرہ اخروی ہوتا ہے (یعنی آخرت میں ثواب ہوگا) سو ایسے اعمال میں اجازت کی کوئی ضرورت نہیں، ثواب اور اللہ کا قرب ہر حالت میں یک ساں ہوگا اور اگر اس کو اجازتِ حدیث وغیرہ پر قیاس کیا جائے تو صحیح نہیں؛  کیوں کہ وہاں اجازت سے سند کی روایت مقصود ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر شخص روایت کا اہل نہیں ہوتا۔ اسی طرح میرا خیال ہے کہ ہر شخص وعظ کا بھی اہل نہیں جس کی حالت پر اطمینان ہوجائے کہ وہ گڑبڑ نہ کرے گا اس کو اجازت دینا چاہیے۔

الغرض اخروی اعمال میں اجازت کے کوئی معنی نہیں بلا اجازت بھی (ان اعمال کے کرنے سے) ثواب میں کمی نہ ہوگی۔ البتہ ماثور (یعنی مسنون) دعاؤں میں الفاظ واعراب کی تصحیح بھی مقصود ہوتی ہے سو جس کو استعداد نہ ہو (جو صحیح نہ پڑھ سکتا ہو) اس کے لیے اجازت میں یہ مصلحت ہے کہ استاد صحیح کرادے گا، اور جس کو اتنی استعداد ہو کہ وہ خود صحیح پڑھ سکتا ہواس کو اس کی بھی ضرورت نہیں‘‘۔(اشرف العملیات)

امدادالفتاوی میں ہے :

’’حقیقت اجازتِ وظائف

سوال(۳۴۸۷) : قدیم ۶/۲۱۴- خط کا جواب جو حضور نے روانہ کیا مجھ کو ملا۔ عرض یہ ہے کہ جس مضمون کو میں نے دیکھ کر حضور کو تکلیف دی وہ یہ ہے کہ فتاویٰ امداد یہ جلد سوم صفحہ ۱۴۰ (۱)پر دلائل الخیرات کے پڑھنے پڑھانے کا اور اجازت لینے کا سوال ہے اورمولانا رشید احمد صاحب گنگوہی رحمہ اللہ کا جواب ہے اور حضور نے اس کے فوائد کی تشریح کی دو قسمیں بیان فرمایا ہے: ایک اجر وثواب، دوسرے کیفیت باطنی بلاسند پڑھنے میں اجروثواب میں کمی نہیں ہوتی۔ البتہ کیفیتِ باطنی میں تفاوت ہوتا ہے، بعدہ حضور کا اسمِ مبارک ہے۔ اسی مضمون کو دیکھ کر میرے دل میں خیال ہوا کہ حضور کی تصنیف مناجاتِ مقبول روزانہ منزل عرصہ سے پڑھتا ہوں، مگر حضور سے اجازت نہیں لی۔ اگر حضور کی اجازت مل گئی تو دو چند فائدہ کی امید اور دل میں خوشی زیادہ پڑھنے کی ہوگی؟

الجواب: السلام علیکم۔ اول تو وہ صرف توجیہ ہے، جوابِ بالا کی،  اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ و ہ میری اصلی رائے ہو۔ دوسرے تفاوت کی کوئی حد بیان نہیں کی گئی۔ ممکن ہے وہ تفاوت غیر معتد بہ ہو جس کو آپ نے دو چند قرا ر دے لیا۔ تیسرے یہ تفاوت اس شخص کے لیے  ہے جو تربیتِ  باطنہ کا شیخ سے تعلق رکھتا ہو کہ طریقِ  تربیت مشابہ علاجِ  طبی کے ہے کہ مریض اپنی رائے سے کوئی عمل نہیں کرسکتا، اس کی مصالح کو طبیب ہی سمجھتا ہے۔ اسی طرح سالک طریقِ  مصالح کی تشخیص میں شیخ کا محتاج ہے؛ اس لیے اس کی اجازت کی ضرورت ہے۔ آپ کا یہ تعلق جس سے ہو اس بنا  پر تمام اذکار کی اس سے اجازت لینا چاہیے۔۴/ ربیع الثانی ۱۳۴۶؁ ھ ‘‘. (تتمہ ۵، ص۵۷۱)(6/214کتاب السلوک،طبع : دارالعلوم کراچی)

الاتقان فی علوم القرآن للسیوطی میں ہے :

’’الإجازة من الشيخ غير شرط جواز التصدي للإقراء والإفادة فمن علم من نفسه الأهلية جاز له ذلك وإن لم يجزه أحد وعلى ذلك السلف الأولون والصدر الصالح وكذلك في كل علم وفي الإقراء والإفتاء خلافا لما يتوهمه الأغبياء من اعتقاد كونها شرطا وإنما إصطلح الناس على الإجازة لأن أهلية الشخص لا يعلمها غالبا من يريد الأخذ عنه من المبتدئين ونحوهم لقصور مقامهم عن ذلك والبحث عن الأهلية قبل الأخذ شرط فجعلت الإجازة كالشهادة من الشيخ للمجاز بالأهلية‘‘. (1/273)فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144012201560

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں