بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

نیوز چینل سے کمائی


سوال

ADC News چینل کے ذریعے پیسے کماناکیساہے؟یہ ایک ایپ ہے،  اس کی شکل یہ ہے کہ یہ چینل ڈالر سے ایڈ ہوتاہے، اس کی مدت بیس مہینے کی ہوتی ہیں اور روز کے حساب سے ٹاسک ملتاہے، یعنی روز کے حساب سے نیوز دیکھ کر یاپڑھ کر  ٹاسک پوراہوتاہے، مہینہ کے حساب سے پیسے ملتے ہیں، اس کو پڑھنے کے لیے زبان بھی بدلی جاسکتی ہے، اگر عربی زبان میں نیوز ہو تو صرف نیوز ہی آتاہے اوراگر ہندی، انگلش وغیرہ زبان میں ہوتو سنیماکے بارے میں بھی ہر طرح کی خبریں آتی ہیں، اس کا حکم بیان فرمادیجیے، اگر یہ ناجائزہے تو اس کے ذریعے جوپیسے کی کمائی ہوئی اس کاکیاحکم ہے ؟ اور اس نیوز چینل کاکیاحکم ہے؟اس چینل سے بہت سارے لوگ جڑے ہوئے ہیں۔

جواب

اے ڈی سی نیوز ایپ کے ذریعہ نیوز ویڈیو دیکھ کر یا خبریں دیکھ کر ٹاسک پورا کرکے پیسہ کمانا شرعاً جائز نہیں، جو رقم حاصل کرلی ہے اسے ثواب کی نیت کے بغیر صدقہ کرنا ضروری ہے۔

زاد المعاد میں ہے:

"فإن قيل: فما تقولون فى كسب الزانية إذا قبضته، ثم تابت، هل يجبُ عليها ردُّ ما قبضته إلى أربابه، أم يطيبُ لها، أم تصَّدق به؟

قيل: هذا ينبني على قاعدة عظيمة مِن قواعد الإسلام، وهى أن مَن قبض ما ليس له قبضُه شرعاً، ثم أراد التخلصَ منه، فإن كان المقبوضُ قد أُخِذَ بغير رضى صاحبه، ولا استوفى عِوضَه، ردَّه عليه. فإن تعذَّر ردُّه عليه، قضى به ديناً يعلمه عليه، فإن تعذَّر ذلك، رده إلى ورثته، فإن تعذَّر ذلك، تصدق به عنه، فإن اختار صاحبُ الحق ثوابَه يوم القيامة، كان له. وإن أبى إلا أن يأخذ مِن حسنات القابض، استوفى منه نظيرَ ماله، وكان ثوابُ الصدقة للمتصدق بها، كما ثبت عن الصحابة رضى الله عنهم.

وإن كان المقبوضُ برضى الدافع وقد استوفى عِوضه المحرم، كمن عاوض على خمر أو خنزير، أو على زنى أو فاحشة، فهذا لا يجبُ ردُّ العوض على الدافع، لأنه أخرجه بإختياره، واستوفى عوضه المحرم، فلايجوزُ أن يجمع له بينَ العوض والمعوض، فإن فى ذلك إعانة له على الإثم والعدوان، وتيسير أصحاب المعاصى عليه. وماذا يريد الزانى وفاعل الفاحشة إذا علم أنه ينال غرضه، ويسترِد ماله، فهذا مما تُصان الشريعة عن الإتيان به، ولا يسوغُ القولُ به، وهو يتضمن الجمْع بين الظلم والفاحشة والغدر. ومن أقبح القبيحِ أن يستوفى عوضه من المزنى بها، ثم يرجع فيما أعطاها قهراً، وقبح هذا مستقر فى فِطر جميع العقلاء، فلا تأتى به شريعة، ولكن لا يطيب للقابض أكله، بل هو خبيث كما حكم عليه رسولُ الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ولكن خبثه لخبث مكسبه، لا لظلم من أخذ منه، فطريقُ التخلص منه، وتمام التوبة بالصدقة به، فإن كان محتاجاً إليه، فله أن يأخذ قدر حاجته، ويتصدق بالباقى، فهذا حكمُ كل كسب خبيث لِخبث عوضه عيناً كان أو منفعة، ولا يلزم من الحكم بخبثه وجوبُ رده على الدافع، فإن النبى صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حكم بخُبثِ كسبِ الحجام، ولا يجب ردُّه على دافعه". (زاد المعاد في هدي خير العباد، ذكر أحكامه في البيوع، فصل في تحريم مهر البغي۵/۷۷۸ و ۷۷۹ ط:مؤسسة الرسالة)

            علامہ ظفر احمد عثمانی رحمہ اللہ نے علامہ ابن قیم رحمہ اللہ کی مذکورہ بات نقل کرنے کے بعد فرمایا:

"وبالجملة فليس كسب الزانية عنده إلا ككسب الحجام، و ثبوت ملك الزانية فيه كثبوت ملك الحجام في كسبه، و غفل رحمه الله عن كون كسب الحجام يقضى له به شرعًا، و كسب الزانية لايقضى لها به أصلًا، كما مر، فافترقا".  (إعلاء السنن، كتاب الإجارة، باب النهي عن مهر البغي و حلوان الكاهن، قول ابن القيم في حل كسب الزانية لها ۱٦/ ۱۹۵ ط:إدارة القرآن)فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144104200423

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں