شاہد نے دوکان بیچی 20لاکھ میں، 10 لاکھ وصول کرلیے اورقضاءِ الہی سے انتقال کر گیا ۔پس ماندگان میں دو بیٹیاں اور بیوہ ہے۔ دوکان والے کہتے ہیں کہ بقایا دس لاکھ لو اور رجسٹری کروادو ۔شاہد کے بہن اور بھائی آگئے اور بیوہ سے اپنے حصے کا مطالبہ کر دیا۔ کیاان کا مطالبہ درست ہے؟ شریعت کے مطابق راہ نمائی فرما دیں!
مرحوم کے ورثاء میں نرینہ اولاد نہ ہونے کی صورت میں مرحوم کے بہن بھائی بھی وارث ہوں گے،لہذا اگر مذکورہ دکان فقط شاہد مرحوم کی ملکیت تھی اور وہ اپنی زندگی میں فروخت کرکے آدھی رقم وصول کرچکاتھااور آدھی رقم خریداروں پر باقی ہے،تو یہ کل رقم مرحوم کے ترکہ میں شامل ہوگی،مرحوم کے ورثاء میں ان کی بیوہ ،دونوں بیٹیاں اور بہن بھائی شامل ہیں اوریہ ترکہ تمام ورثاء میں ان کے شرعی حصوں کے مطابق تقسیم ہوگی۔نیز اگر مرحوم کے والدین حیات ہیں تو وہ بھی مرحوم کے ترکہ میں وارث ہونگے ۔لہذاوالدین کی صراحت اوربہن ،بھائیوں کی تعداد لکھ کر وراثت کی تقسیم کی صورت دوبارہ دریافت کرلیں۔فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 143909200794
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن