بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مکان گروی رکھ کر کرایہ پر دینا


سوال

 زید بکر سے 5 سال کے لیے مکان گروی کرتاہے  650000پر اور ہر ماہ 500 روپے کرایہ  دیتا  ہے،  شرعاً یہ کیسا ہے؟

جواب

اس سوال سے مراد اگر یہ ہے کہ بکر زید  کے پاس کوئی مکان گروی رکھتا ہے اور کچھ قرض وغیرہ لیتا ہےتو یہ مکان ’’مرہون‘‘ (گروی)ہے بکر ’’راہن‘‘ (گروی رکھوانے والا)اورزید  ’’مرتہن‘‘ (گروی رکھنے والا)ہے، تو رہن کے مکان میں راہن کی اجازت سے کرایہ پر رہ سکتے ہیں، لیکن پہلا معاملہ (عقدِ رہن) کا ختم ہوجائے گا اور یہ سمجھا جائے گا کہ زید نے بکر سے 500 روپے کے عوض مکان کرایہ پر لیا ہے اس پر اِجارہ (کرایہ داری) کے احکام جا ری ہوں گے۔

اور اگر سوال کا مقصد یہ ہے کہ زید نے بکر سے گھر کرایہ پر لیا اور  سیکورٹی کی رقم میں اضافہ کرکے کرایہ معروف کرایہ سے بہت کم کروادیا تو یہ صورت  شرعاً جائز نہیں،  خواہ فریقین کی باہمی رضا مندی سے ہی کیوں نہ ہو ۔

’’أنواع الربا: وأما الربا فهو علی ثلاثة أوجه:أحدها في القروض، والثاني في الدیون، والثالث في الرهون.

الربا في القروض: فأما في القروض فهو علی وجهین:أحدهما أن یقرض عشرة دراهم بأحد عشر درهماً أو باثني عشر ونحوها. والآخر أن یجر إلی نفسه منفعةً بذلک القرض، أو تجر إلیه وهو أن یبیعه المستقرض شيئا بأرخص مما یباع أو یوٴجره أو یهبه…، ولو لم یکن سبب ذلک (هذا ) القرض لما کان (ذلک )الفعل، فإن ذلک رباً، وعلی ذلک قول إبراهیم النخعي: کل دین جر منفعةً لا خیر فیه.‘‘ (النتف في الفتاوی ، ص ۴۸۴، ۴۸۵)

حاشية رد المحتار على الدر المختار (5/ 166):
’’لايحل له أن ينتفع بشيء منه بوجه من الوجوه وإن أذن له الراهن؛ لأنه أذن له في الربا؛ لأنه يستوفي دينه كاملاً فتبقى له المنفعة فضلاً؛ فتكون رباً، وهذا أمر عظيم، 
 قلت: وهذا مخالف لعامة المعتبرات من أنه يحل بالإذن إلا أن يحمل على الديانة وما في المعتبرات على الحكم.
ثم رأيت في جواهر الفتاوى: إذا كان مشروطاً صار قرضاً فيه منفعة وهو رباً، وإلا فلا بأس به ا هـ ما في المنح ملخصاً‘‘. 
  ’’وَالْغالِبُ مِنْ اَحْوَالِ النَّاسِ اَنَّهَمْ اِنَّمَا یُرِیْدُونَ عِنْدَ الْدَفْعِ اَلاِنْتِفَاعَ وَلَولَاه لَمَا اَعْطَاه الْدَّرَاهمَ وَهذا بِمَنْزِلَةِ الْشَرْطِ؛ لِأَنَّ الْمَعْرُوفَ کَالْمَشْرُوطِ وَهوَ یُعِیْنُ الْمَنْعَ‘‘. (الدر المختار مع ردالمحتار، ج۵/ ص۳۱۱) 
فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144012200529

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں