بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مسجد کا سامان کرایہ یا عاریت پر دینا


سوال

مسجد اور مدرسہ کے سامان مثلاً جنریٹر۔ پائپ۔ ہاتھ گاڑی۔ وغیرہ کو کرایہ پر دینا یا عاریۃً  دینا از روئے شریعت کیسا ہے؟

جواب

مسجد کا سامان کسی کو عاریت پر یعنی بغیر عوض کے ذاتی استعمال کے لیے دینا جائز نہیں ہے۔ کرایہ پر دینے کا حکم یہ ہے کہ اگر واقف نے کوئی شرط عائد کی ہو تو اس کی تعمیل کی جائے گی الایہ کہ وہ شرط وقف کے مفاد کے خلاف ہو۔ اگر موقوفہ اشیاء فی الوقت مسجد یا مدرسے کے استعمال میں نہ ہوں، اور  آمدن کی ضرورت ہو یا کرایہ پر دینے میں مسجد، مدرسے کا فائدہ ہو تو بوقتِ ضرورت موقوفہ اشیاء عام بازاری نرخ پر کرایہ دی جائیں اور اگر متولی اپنے کسی عزیز کو دے تو عام نرخ سے زیادہ پر دے۔ بہرحال اگر متولی یا مسجد کمیٹی اس میں مسجد کا فائدہ اور مصلحت سمجھیں تو وہ مسجد کے سامان کو وقتی طور پر معقول کرایہ پر دے کر مسجد  کی آمدنی میں اضافہ کرسکتی ہے۔ البتہ ایسے شخص کو یا ایسے کام میں یہ اشیاء کرائے پر نہ دی جائیں جہاں ان کے ضیاع کا گمان ہو۔

الاشباہ والنظائر میں ہے:

”ولاتجوز إعارة أدواته لمسجد آخر اهـ.“ ( ص۴۷۱ مطبوعه دارالکتب العلمیة بیروت)

فتاوی عالمگیریہ میں ہے:

”متولي المسجد لیس له أن یحمل سراج المسجد إلی بیته وله أن یحمله من البیت إلی المسجد“، کذا في فتاوی قاضي خان اهـ‘‘. ۲:۴۶۲ مطبوعہ مکتبہ زکریا دیوبند)

وفي الخانیة:

’’قال الفقیه أبو جعفر: إذا لم یذکر الواقف في صک الوقف إجارة الوقف، فرأی القیم أن یواجرها ویدفعها مزارعةً، فما کان أدر علی الوقف وأنفع للفقراء فعل‘‘. (خانیہ ۳؍۳۳۲ زکریا)

وفي فتح القدیر :

’’وإنما یملک الإجارة المتولي أو القاضي‘‘. (فتح القدیر / کتاب الوقف ۶؍۲۲۴ بیروت) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144007200502

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں