بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مسجد حرام میں مقتدی کا امام سے آگے ہونا


سوال

میں یہاں سعودی عرب میں ہوں، میں نے بحمداللہ امسال اعتکاف کیا حرم شریف میں۔ ایک بات میرے مشاہدہ میں یہ آئی کہ اب حرم شریف میں امام کے لیے مستقل ایک برآمدے میں جگہ بنائی گئی ہے اور وہاں وہ نماز پڑھاتا تھا فرض بھی اور تراویح بھی ۔ اب سوال یہ ہے کہ فرض نماز میں امام برآمدے میں ہوتا ہے اور مقتدی مطاف میں تو کیا ان مقتدیوں کی نماز ہوتی ہے؟  جو مطاف میں ہوں حال آں کہ وہ امام سے آگے ہیں اور امام پیچھے؟

جواب

واضح رہے کہ مسجدِ حرام میں  امام چار جہتوں میں سے جس جہت میں کھڑا ہو کر  نماز پڑھا رہا ہے، اس جہت میں اگر کوئی مقتدی امام سے اتنی مقدار آگے بڑھتا ہے کہ اس کی ایڑھی امام کی ایڑھی سے آگے ہوجائے اور وہ کعبہ سے امام کی بہ نسبت زیادہ قریب ہوجائے تو ایسے مقتدی کی نماز فاسد ہوجاتی ہے۔اور وہ مقتدی جو امام کی جہت میں نہ ہوں، بلکہ دوسری جہات کی طرف ہوں، ان میں سے اگر کوئی مقتدی امام کی بہ نسبت کعبہ سے زیادہ قریب ہو تو ایسے مقتدی کی نماز صحیح اور درست ہے۔

آج کل بعض ائمہ، حرمِ مکی میں بیت اللہ سے کافی فاصلے پر برآمدے میں مخصوص جگہ میں نماز کی امامت کرتے ہیں؛ اور زائرین سمجھتے ہیں کہ ازدحام وغیرہ کی وجہ سے بوجہ عذر امام کے آگے بھی نماز ادا کی جاسکتی ہے، اس وجہ سے آج کل کچھ کوتاہی دیکھنے میں آرہی ہے، مسجدِ حرام میں نماز ادا کرنے والے کو چاہیے کہ وہ اس بات کا اہتمام کرے  کہ جس جہت میں امام کھڑا ہو  اس جہت میں امام سے آگے نہ ہو، ورنہ نماز (خواہ پنج وقتہ ہو یا نمازِ جنازہ) ادا نہیں ہوگی، ازدحام وغیرہ کی وجہ سے بھی امام کی جانب آگے بڑھ کر نماز ادا کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ زائرین کو چاہیے کہ وہ سفرِ حج اور عمرہ پر جانے سے پہلے وہاں پیش آنے والے اہم مسائل کے حوالے سے کسی مستند مفتی/ عالم سے مذاکرہ کرلیاکریں۔ 

الفتاوى الهندية (1/ 65):
"وإذا صلى الإمام في المسجد الحرام وتحلق الناس حول الكعبة وصلوا صلاة الإمام فمن كان منهم أقرب إلى الكعبة من الإمام جازت صلاته إذا لم يكن في جانب الإمام. كذا في الهداية".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 254):
"أما إذا كان أقرب إليها من الإمام في الجهة التي يصلي إليها الإمام، بأن كان متقدماً على الإمام بحذائه فيكون ظهره إلى وجه الإمام، أو كان على يمين الإمام أو يساره متقدماً عليه من تلك الجهة ويكون ظهره إلى الصف الذي مع الإمام ووجهه إلى الكعبة، فلا يصح اقتداؤه لأنه إذا كان متقدماً عليه لايكون تابعاً له بدائع".
فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144010200417

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں