بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مسافر جماعت میں شامل ہو تو کیسے نیت کرے؟ امام کے مسافر یا مقیم ہونے کا کیسے معلوم ہوگا؟


سوال

سفری نماز میں کیسے پتا چلے کہ آگے کھڑا امام مقامی ہے یا سفری؟ اور مجھے کتنی رکعات کی نیت کرنی ہوگی جب کہ میرے نماز نیت کرنے سے پہلے کی جماعت کھڑی ہے؟ 

جواب

مسافر اگر جماعت کی نماز میں شامل ہو رہا ہو تو اس کے لیے وقتی فرض کی ادائیگی کی نیت کرنا ضروری ہے، نہ کہ  تعدادِ  رکعات کی، پس اگر مسافر  مقتدی نے امام کو مقیم جان اقتدا  کی اور چار رکعت کی نیت کرلی اور امام نے دو رکعت پر سلام پھیر دیا تو مسافر بھی امام کے ساتھ ہی سلام پھیر دے گا اور مسافر  مقتدی مسبوق ہونے کی صورت میں بھی قصر ہی کرے گا.

امام کے مسافر ہونے کی صورت میں امام کے لیے حکم یہ ہے کہ وہ ظہر عصر اور  عشاء میں دو رکعت ادا کرکے سلام پھیر نے کے بعد اعلان کردے کہ میں مسافر ہوں؛ لہذا مقیمین اپنی نماز پوری کرلیں. مسئولہ صورت میں اگر امام ایسا اعلان نہ کرے اور امام کے مسافر ہونے کا علم نہ ہو تو مسبوق مسافر ظہر عصر عشاء میں چار رکعات مکمل کرے گا۔

تنویر الأبصار مع الدر المختار میں ہے:

"(وَلَا بُدَّ مِنْ التَّعْيِينِ عِنْدَ النِّيَّةِ) ... (لِفَرْضٍ) أَنَّهُ ظُهْرٌ أَوْ عَصْرٌ ...(وَوَاجِبٍ) أَنَّهُ وِتْرٌ أَوْ نَذْرٌ...(دُونَ) تَعْيِينِ (عَدَدِ رَكَعَاتِهِ) لِحُصُولِهَا ضِمْنًا، فَلَا يَضُرُّ الْخَطَأُ فِي عَدَدِهَا". ( شامي، كتاب الصلاة، باب شروط الصلاة، ١/ ٤١٨ - ٤٢٠)

فتاوی تاتارخانیہ میں ہے:

"إذا اقتدي بإمام لايدري أنه مقيم أو مسافر، قالوا: لايصح اقتداؤه ؛ لأن العلم بحال الإمام شرط أداء الصلاة بالجماعة، و رواية الكتاب تدل علي أنه يصح الإقتداء بالإمام و إن لم يعرف بحاله أنه مسافر أو مقيم. قلت: تلك الرواية محمولة علي ما إذا بنوا أمر الإمام علي ظاهر حال الإقامة، و الحال أنه ليس بمقيم و سلم علي رأس الركعتين و تفرقوا علی ذلك لاعتقادهم بفساد صلاة الإمام، و أما اذا علموا بعد الصلاة بحال الإمام كان إقتداؤهم جائزا و إن لم يعلموا بحال وقت الاقتداء به. فإن أخبرهم قبل الشروع بأني مسافر فسلم علي رأس الركعتين فقام جازت صلاتهم... الخ (كتاب الصلاة، الفصل الثاني و العشرون في صلاة المسافر، نوع آخر في بيان ما يصير المسافر مقيما بدون نية الإقامة. ( ٢/ ٢١) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144008201063

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں