بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مرکزی روئیت ہلال کمیٹی کے اعلان کے مطابق روزہ رکھنے والوں کے روزہ کا حکم


سوال

آج کل ایک بات مشہور ہے  کہ جنہوں نے 7 مئی کو روزہ رکھا ہے، ان سے ایک روزہ چھوٹ گیا ہے اور مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے فیصلے پر عمل کرنے والے گناہ گار ہیں؟

جواب

سوال میں ذکر کردہ بات درست نہیں ہے۔

پاکستان کی مرکزی روئیت ہلال کمیٹی کے اعلان کے مطابق پاکستان میں یکم رمضان 7 مئی کو تھا، نیز کراچی اور ملک کے دیگر خطوں میں رمضان المبارک اور عید الفطر کے چاند کی رؤیت گواہی کے مطابق ہونے کے ساتھ ساتھ فلکی قواعد کے مطابق بھی درست تھی، اور مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی کے اعلان کے مطابق روزہ رکھنے والوں کے 29 روزے بھی پورے ہوئے ہیں؛ لہذا پاکستان میں رہنے والے لوگوں کے لیے 7 مئی کو ہی روزہ رکھنا لازم تھا، جنہوں نے سات مئی کو روزے رکھے ہیں ان کا ایک روزہ کم نہیں ہوا۔

نیز واضح رہے  کسی علاقے میں کوئی قاضی یا حکومت کی طرف سے مقرر کردہ  کمیٹی پورے  ضلع یا صوبے  یا پورے ملک  کے لیے ہو  اور وہ شرعی شہادت  موصول ہونے پر  چاند نظر آنے کا اعلان کردے تو اس کے فیصلے پر اپنی حدود اور ولایت میں  ان لوگوں پرجن تک فیصلہ اور اعلان یقینی اور معتبر ذریعے سے پہنچ جائے  عمل  کرنا واجب ہوگا،  چوں کہ  مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی  قاضی شرعی کی  حیثیت    رکھتی ہے، لہذا شہادت موصول ہونے پر اگر وہ اعلان کردے تو ملک میں  جن لوگوں تک یہ اعلان    معتبر ذرائع سے پہنچ جائے ، ان پر روزہ رکھنا یا عید کرنا لازم ہوگا۔

         مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی کے علاوہ غیر مجاز ، پرائیویٹ کمیٹیاں رؤیت ہلال کا فیصلہ کرنے میں خود مختار نہیں ہیں، اور ان کا فیصلہ دوسرے لوگوں کے لیے قابل عمل نہیں ہے، اس لیے ان کو ولایت عامہ حاصل نہیں ہے، اور ان کا اعلان عام لوگوں کے لیے حجت نہیں ہے۔

         نیل الأوطار میں ہے:

"وثانيها: أنه لايلزم أهل بلد رؤية غيرهم إلا أن يثبت ذلك عند الإمام الأعظم فيلزم كلهم؛ لأن البلاد في حقه كالبلد الواحد إذ حكمه نافذ في الجميع، قاله ابن الماجشون". (4 / 230، باب الهلال إذا رآه أهل بلدة هل يلزم بقية البلاد الصوم، ط؛ دار الحديث، مصر)

       فتاوی تاتارخانیہ میں ہے:

"الفتاوی النسفیة: سئل عن قضاء القاضي برؤیة هلال شهر رمضان بشهادة شاهدین عند الاشتباه في مصر، هل یجوز لأهل مصر آخر العمل بحکمهم؟ فقال:لا، ولایکون مصرآخر تبعاً لهذا المصر، إنما سکان هذا المصر وقراها یکون تبعاً لهم". (3/365، کتاب الصوم، الفصل :2، رؤیۃ الہلال، ط؛ زکریا ، دیوبند)

حضرت مولانا مفتی محمود ؒ    ”زبدۃالمقالفیرؤیۃالھلال“  میں تحریر فرماتےمیںہے:

"إذا ثبت الصوم أو الفطر عند حاکم تحت قواعد الشرع بفتوی العلماء أو عند واحد أو جماعة من العلماء الثقات ولاّهم رئیس المملکة أمر رؤیة الهلال، وحکموا بالصوم أو الفطر  ونشروا حکمهم هذا في رادیو، یلزم علی من سمعها من المسلمین العمل به في حدود ولایتهم، وأما فیما وراء حدود ولایتهم فلا بد من الثبوت عند حاکم تلک الولایة بشهادة شاهدین علی الرؤیة أو علی الشهادة أو علی حکم الحاکم أو جاء الخبر مستفیضاً، لأن حکم الحاکم نافذ في ولایته دون ما وراءها". (زبدة المقال في رؤیة الهلال،  بحواله خیر الفتاوی، 4/118،  ط؛ مکتبة الخیر ملتان)

         جواہرالفقہمیںہے:

’’اور  جس طرح  ایک شہر کے قاضی یا ہلال کمیٹی کا فیصلہ اس شہر اور اس کے مضافات کے لیے واجب العمل ہے اسی طرح اگر کوئی قاضی یا مجسٹریٹ یا ہلال کمیٹی  پورے ضلع یا صوبہ یا پورے ملک  کے لیے ہو تو اس کا فیصلہ  اپنے اپنے حدود ولایت میں واجب العمل ہوگا‘‘۔(3/484، مسئلہ رؤیت ہلال،  ط؛ مکتبہ دارالعلوم کراچی) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144008201633

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں