بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

قربانی اور زکاۃ کے وجوب کا نصاب، بڑے جانور میں قربانی کے ساتھ عقیقے کا حکم


سوال

1- وجوبِ زکاۃ اور وجوبِ  قربانی کے نصاب کی وضاحت فرمادیں!

2- مستحقِ زکاۃ  بندہ کب ہوتا ہے؟

3- قربانی کےبڑے جانور میں واجب قربانی کے ساتھ اپنے بچوں کے عقیقے کی نیت سے حصہ ڈالا جاسکتا ہے؟

جواب

1- قربانی اور زکات کے واجب ہونے  کے نصاب میں فرق یہ ہے  کہ زکات صرف مالِ نامی (جو عادۃً بڑھتاہے) پر فرض ہوتی ہے ، جیسے مالِ تجارت، یا مویشی، یا سونا چاندی اور نقدی۔ اس کے علاوہ ذاتی مکان، دکان، برتن، فرنیچر، اور دوسرے گھریلو سامان، ملوں، کارخانوں کی مشینری ، جواہرات خواہ کتنے ہی قیمتی ہوں اگر تجارت کے لیے نہ ہوں تو ان پر زکات فرض نہیں ہے۔

جب کہ قربانی اور صدقہ فطر واجب ہونے کے نصاب میں ان چیزوں کے ساتھ  کسی بھی قسم کے ضرورت سے زائد سامان کو بھی ملایا جاتا ہے، مثلاً کسی کے پاس دو مکان ہیں، ایک رہائش کے لیے اور ایک ایسے ہی بند پڑا ہوا ہے، اور ضرورت سے زائد ہے تو قربانی وغیرہ کے نصاب میں اس کو  بھی شامل کیا جائے گا، اسی طرح ضرورت سے زائد سامان کا بھی یہی حکم ہوگا۔

دوسرا فرق یہ بھی ہے کہ زکاۃ کے وجوب کے لیے نصاب پر سال گزرنا شرط ہے، جب کہ قربانی واجب ہونے کے لیے اس نصاب پر سال گزرنا بھی شرط نہیں ہے، بلکہ عید الاضحیٰ کے تین دن (دس ذوالحجہ کی صبح صادق سے لے کر بارہ ذوالحجہ کی مغرب سے پہلے بھی) اگر نصاب کے بقدر مال آگیا تو قربانی واجب ہوجائے گی۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 312):
"واليسار الذي يتعلق به) وجوب (صدقة الفطر) كما مر (لا الذكورة فتجب على الأنثى)، خانية.

(قوله: واليسار إلخ) بأن ملك مائتي درهم أو عرضاً يساويها غير مسكنه وثياب اللبس أو متاع يحتاجه إلى أن يذبح الأضحية ولو له عقار يستغله فقيل: تلزم لو قيمته نصاباً،..."الخ

الفتاوى الهندية (1/ 191):
"وهي واجبة على الحر المسلم المالك لمقدار النصاب فاضلاً عن حوائجه الأصلية، كذا في الاختيار شرح المختار، ولايعتبر فيه وصف النماء، ويتعلق بهذا النصاب وجوب الأضحية، ووجوب نفقة الأقارب، هكذا في فتاوى قاضي خان". 

2- زکاۃ کا مستحق وہ شخص ہے جو قربانی اور صدقہ کے نصاب کا بھی مالک نہ ہو،جس کے پاس حاجتِ اصلیہ ضروریہ سے زائد اتنا مال یا سامان (زیور ،مکان، زمین، اسباب ،کتابیں وغیرہ) نہ ہو جس کی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر ہو جائے ، ایسا شخص زکاۃ لینے پر مجبور ہو تو لے سکتا ہے۔ 

3-جی ہاں قربانی میں عقیقہ کا حصہ بھی ڈالا جاسکتا ہے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144010200818

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں