بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

قے سے وضو کا حکم


سوال

اگر کوئی آدمی قے کرے اور وہ بھر کر نہ ہو تو کیا اس سے وضو ٹوٹ جاتاہے یا نہیں؟

جواب

اگر قے ہو اور اس میں کھانا  یا پانی یا پت گرے تو اگر منہ بھر  قے ہوئی ہو تو وضو ٹوٹ گیا اور اگر منہ بھر نہیں ہوئی تو وضو نہیں ٹوٹا۔ منہ بھر ہونے کا مطلب ہےکہ مشکل سے منہ میں رکے۔اگر قے میں صرف بلغم گرا تو وضو نہیں ٹوٹا،  چاہے بلغم جتنا بھی ہو،منہ بھر ہو یا نہ ہو،سب کا ایک حکم ہے۔اگر قے میں خون گرے تو اگر پتلا اور بہنے والا ہو تو وضو ٹوٹ جائے گا۔چاہے کم ہو یا زیادہ،منہ بھر ہو یا نہیں ہو،اور اگر خون جمے ہوئے  ٹکڑوں کی صورت میں ہو اور منہ بھر ہو تو وضو ٹوٹ جاے گا اور اگر کم ہو تو نہیں ٹوٹے گا۔

اگر تھوڑی تھوڑی کرکے کئی دفعہ قے ہوئی، لیکن سب ملا کر اتنی ہےکہ اگر ایک دفعہ میں ہوتی تو منہ بھر جاتا تو  دیکھا جائے گا کہ اگر ایک ہی متلی مسلسل باقی رہی اور تھوڑی تھوڑی قے ہوتی رہی تو وضو ٹوٹ جائے گا اور اگر ایک ہی متلی مسلسل نہیں رہی، بلکہ پہلی دفعہ کی متلی ختم ہوگئی اور طبیعت ٹھیک ہو گئی پھر دوبارہ متلی شروع ہوئی اور تھوری قے ہو گئی،پھر جب متلی ختم ہو گئی تو تیسری دفعہ پھر متلی شروع ہوکر قے ہوئی تو وضو نہیں ٹوٹا۔

"ينقض الوضوء قىء ملأفاه بأن يضبط بتكلف من مرة اي صفراء او علق أي سوداء؛وأما العلق النازل من الرأس فغير ناقض او طعام أو ماء اذا اوصل الي معدته وان لم يستقر، وهو نجس مغلظ ولو من صبي ساعة ارتضاعه هو الصحيح لمخالطة النجاسة، ذكره الحلبي.

ولو هو في المرىء فلا نقض اتفاقا كقىء حية أو دود كثير لطهارته في نفسه،كماء فم النائم فانه طاهر مطلقا به يفتی، بخلاف ماء فم الميت فانه نجس كقيء عين خمر أو بول وان لم ينقض لقلته لنجاسته بالاصالة لا بالمجاورة لا ينقضه قيء من بلغم علي المعتمد(أصلا) الا المخلوط بطعام فيعتبر الغالب،ولو استويا فكل على حدة.وينقضه دم مائع من جوف أو فم (غلب على بزاق) حكما للغالب( أو ساواه) احتياطا.لا ينقضه المغلوب بالبزاق والقيح كالدم والاختلاط بالمخاط كالبزاق.

ويجمع متفرق القىء و يجعل كقيء واحد لاتحاد السبب وهو الغيثان عند محمد رحمه الله وهو الاصح، لان الاصل اضافة الاحكام الي اسبابها الا لمانع، كما بسط في الكافي".

(رد المحتار على الدرالمختار) (حاشية ابن عابدين) (ج: ا/ص ٢٩٣۔٢٨٩) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144010200074

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں