بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

عورت کی حکمرانی سے متعلق ایک روایت


سوال

کیا ایسی کوئی حدیث ہے کہ عورت اگر حکومت میں آجائے تو اس کی اتباع ضروری ہے؟

جواب

سوال میں ذکر کردہ الفاظ  تلاش کے باوجود  کسی روایت میں نہیں مل سکے۔ 

البتہ اس کے برخلاف ایسی روایات ملتی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ عورت حکمرانی کی اہل نہیں، اور عورت کی حکمرانی فتنوں کے لیے راستہ ہموار کرنا ہے ،جیسا کہ سنن الترمذی میں ہے:

"حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ سَعِيدٍ الأَشْقَرُ قَالَ: حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ مُحَمَّدٍ، وَهَاشِمُ بْنُ القَاسِمِ، قَالَا: حَدَّثَنَا صَالِحٌ المُرِّيُّ، عَنْ سَعِيدٍ الجُرَيْرِيِّ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ النَّهْدِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِذَا كَانَ أُمَرَاؤُكُمْ خِيَارَكُمْ، وَأَغْنِيَاؤُكُمْ سُمَحَاءَكُمْ، وَأُمُورُكُمْ شُورَى بَيْنَكُمْ فَظَهْرُ الأَرْضِ خَيْرٌ لَكُمْ مِنْ بَطْنِهَا، وَإِذَا كَانَ أُمَرَاؤُكُمْ شِرَارَكُمْ وَأَغْنِيَاؤُكُمْ بُخَلَاءَكُمْ، وَأُمُورُكُمْ إِلَى نِسَائِكُمْ فَبَطْنُ الأَرْضِ خَيْرٌ لَكُمْ مِنْ ظَهْرِهَا»" (أبواب الفتن، رقم الحديث: ٢٢٦٦)

ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی علیہ وسلم نے فرمایا: جب تک تمہارے حکمران بہترین لوگوں میں سے ہوں گے اور تمہارے مال دار سخی اور بخشش کرنے والے ہوں گے اور تمہارے معاملات باہمی مشورہ سے طے پائیں گے تو تمہارے واسطے زمین کے اوپر رہنا قبر میں جانے سے بہتر ہوگا، اور جب تمہارے حکمران تمہارے بد ترین لوگ ہوں اور مال دار بخیل ہوجائیں اور تمہاری سربراہی و حکمرانی عورتوں کے سپرد کردی جائے تو تمہارے لیے زمین کے اوپر رہنے سے قبر میں چلے جانا بہتر ہوگا۔ "صحیح البخاری" میں ہے: "حدثنا عثمان بن الهيثم حدثنا عوف عن الحسن عن أبي بكرة قال: "لقد نفعني الله بكلمة سمعتها من رسول الله صلى الله عليه وسلم أيام الجمل بعد ما كدت أن ألحق بأصحاب الجمل، فأقاتل معهم قال: لما بلغ رسول الله صلى الله عليه وسلم أن أهل فارس قد ملكوا عليهم بنت كسرى، قال: «لن يفلح قوم ولّوا أمرهم امرأة»". ( كتاب المغازي، باب كتاب النبي صلي الله عليه وسلم إلى كسرى و قيصر، رقم الحديث ٤١٦٣)

ترجمہ: حضرت ابو بکرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جنگ جمل کے زمانے میں اللہ نے مجھے ایک فرمان کی وجہ سے نفع پہچایا جو میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سنا تھا ۔۔۔ وہ یہ کہ جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر ملی کہ اہلِ فارس نے کسری کی بیٹی کو سلطنت کی حکمرانی دے دی ہے تو رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ قوم کبھی کامیاب نہیں ہوسکتی جس نے حکمرانی کسی عورت کے سپرد کی ہو۔

فتح الباری شرح صحیح البخاری میں ہے:

"قال الخطابي : في الحديث أن المرأة لا تلي الإمارة ولا القضاء ... والمنع من أن تلي الإمارة والقضاء قول الجمهور".

ترجمہ: امام خطابی نے فرمایا کہ امارت (حکمرانی) اور قضا کے منصب پر عورت فائز نہیں ہوسکتی، اور یہی جمہور کا قول ہے۔

شرح السنۃ للبغوی میں ہے:

"قال الإمام: اتفقوا أن المرأة لا تصلح أن تكون إماماً و لا قاضياً؛ لأن الإمام يحتاج إلى الخروج لإقامة أمر الجهاد و القيام بأمر المسلمين، و القاضي يحتاج البررز لفصل الخصومات، و المرأة عورة لا تصلح للبروز، و تعجز لضعفها عند القيام بأكثر الأمور؛ و لأن المرأة ناقصة، و الإمامة و القضاء من كمال الولاية، فلا يصلح لها إلا الكامل من الرجال". (١/ ٧٧)

البتہ وہ امور جن میں عورت کی گواہی شرعاً  قابلِ قبول ہوتی ہے ان امور کی انجام دہی کی ذمہ داری اور ایسے شعبہ کی ذمہ دار عورت کو بنایا جا سکتا ہے اور اس شعبہ کی ذمہ دار خاتون کی بات نہ صرف معتبر سمجھی جائے گی، بلکہ اس کی پاس داری دوسروں پر بھی لازم ہوگی، بشرطیکہ نصوص شرعیہ کے خلاف کوئی فیصلہ یا حکم نامہ جاری نہ کرے۔

فتح الباری شرح صحیح البخاری میں ہے:

"وعن أبي حنيفة تلي الحكم فيما تجوز فيه شهادة النساء" . (کتاب المغازی، باب کتاب النبي صلي الله عليه وسلم إلى كسري و قيصر)فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143909201638

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں