بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عشاء کی نماز ترک کرکے تہجد کی نماز ادا کرنا


سوال

اگر کوئی شخص عشاء کی نماز ترک کرتا ہو تو کیا وہ تہجد پڑھ سکتا ہے؟

جواب

عشاء کی نماز فرض ہے،  اس کا بغیر عذر کے چھوڑنا کبیرہ گناہ ہے، اگر کبھی کسی عذر کی وجہ سے عشاء کی نماز کا وقت  نکل بھی جائے، تب بھی اس کی قضا کرنا لازم ہوتا ہے، جب کہ تہجد کی نماز نفل نماز ہے، تہجد پڑھنا اجر وثواب کا باعث ہے، لیکن اس کے چھوڑنے پر گناہ نہیں ہے، اس لیے فرض کو چھوڑ کر تہجد کی نماز ادا کرنا عقل مندی کا کام نہیں ہے، لہذا تہجد کے بجائے فرض نماز پڑھنا ضروری ہے، نیز تہجد کی نماز کا وقت بھی عشاء کی نماز  کے بعد سے صبح صادق تک ہے۔ عشاء کی نماز سے پہلے تہجد کی نماز نہیں ہوگی، بلکہ عام نفل ہوجائیں گے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 24)
"قال في البحر: فمنها ما في صحيح مسلم مرفوعاً: «أفضل الصلاة بعد الفريضة صلاة الليل». وروى الطبراني مرفوعاً: «لا بد من صلاة الليل ولو حلب شاة، وما كان بعد صلاة العشاء فهو من الليل». وهذا يفيد أن هذه السنة تحصل بالتنفل بعد صلاة العشاء قبل النوم. اهـ.
قلت: قد صرح بذلك في الحلية، ثم قال فيها بعد كلام: ثم غير خاف أن صلاة الليل المحثوث عليها هي التهجد. وقد ذكر القاضي حسين من الشافعية أنه في الاصطلاح التطوع بعد النوم، وأيد بما في معجم الطبراني من حديث الحجاج بن عمرو - رضي الله عنه - قال: «يحسب أحدكم إذا قام من الليل يصلي حتى يصبح أنه قد تهجد، إنما التهجد المرء يصلي الصلاة بعد رقدة»، غير أن في سنده ابن لهيعة وفيه مقال، لكن الظاهر رجحان حديث الطبراني الأول؛ لأنه تشريع قولي من الشارع صلى الله عليه وسلم بخلاف هذا، وبه ينتفي ما عن أحمد من قوله: قيام الليل من المغرب إلى طلوع الفجر اهـ ملخصاً.
أقول: الظاهر أن حديث الطبراني الأول بيان لكون وقته بعد صلاة العشاء، حتى لو نام ثم تطوع قبلها لايحصل السنة، فيكون حديث الطبراني الثاني مفسراً للأول، وهو أولى من إثبات التعارض والترجيح لأن فيه ترك العمل بأحدهما ولأنه يكون جارياً على الاصطلاح ولأنه المفهوم من إطلاق الآيات والأحاديث ولأن التهجد إزالة النوم بتكلف مثل: تأثم أي تحفظ عن الإثم؛ نعم صلاة الليل وقيام الليل أعم من التهجد، وبه يجاب عما أورد على قول الإمام أحمد هذا ما ظهر لي، والله أعلم". 
فقط واللہ اعلم

 


فتوی نمبر : 144008201717

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں