کسی نمازی کا صف میں رومال وغیرہ رکھ کر اپنےلیے کوئی جگہ متعین کر لینا شرعاً کیا حکم رکھتا ہے؟
جو شخص مسجد میں پہلے آجائے وہ خالی جگہ کا مستحق ہے، پس اگر کوئی شخص پہلے آکر جگہ پر بیٹھ جائے، پھر کسی ضرورت سے اٹھنا پڑے، مثلاً وضو کے لیے جانا پڑ جائے تو اس کا جگہ روکنا تو صحیح ہے، لیکن اگر جگہ روک کر گھر چلا جائے یا بازار میں پھرتا رہے تو اس کا جگہ روکنا جائز نہیں ہے۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 662):
"(قوله: وتخصيص مكان لنفسه) لأنه يخل بالخشوع، كذا في القنية: أي لأنه إذا اعتاده ثم صلى في غيره يبقى باله مشغولاً بالأول، بخلاف ما إذا لم يألف مكاناً معيناً (قوله: وليس له إلخ) قال في القنية: له في المسجد موضع معين يواظب عليه وقد شغله غيره. قال الأوزاعي: له أن يزعجه، وليس له ذلك عندنا اهـ أي لأن المسجد ليس ملكا لأحد بحر عن النهاية۔
قلت: وينبغي تقييده بما إذا لم يقم عنه على نية العود بلا مهلة، كما لو قام للوضوء مثلا ولا سيما إذا وضع فيه ثوبه لتحقق سبق يده۔ فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144003200468
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن