میں نے کئی سال پہلے ایک کمپنی کی موبائل ایپلی کیشن میں ڈیزائننگ کی کچھ تبدیلیاں کرکے دی تھیں، کمپنی شراب کا کاروبار کرتی تھی، کیا میری یہ آمدنی حلال ہے؟ اگر نہیں تو اب اس کا کفارہ کیا ہوگا؟
اگر شراب بنانے والی کمپنی کا مالک مسلمان ہو تو اس کی کمپنی کا مذکورہ کام کرنا آپ کے لیے ناجائز و حرام تھا، اس سے حاصل شدہ آمدنی بھی حرام ہوگی۔ اس صورت میں کمائی ہوئی رقم کسی مستحقِ زکاۃ کو ثواب کی نیت کے بغیر دینا ضروری ہوگا۔ لیکن اگر مالک غیر مسلم ہو تو اس کی ملازمت حرام نہیں بلکہ مکروہِ تحریمی ہوگی، آمدنی حلال ہوگی، لیکن کراہت سے خالی نہ ہو گی۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 391):
"(و) جاز تعمير كنيسة و (حمل خمر ذمي) بنفسه أو دابته (بأجر) .... (قوله: وحمل خمر ذمي) قال الزيلعي: وهذا عنده وقالا: هو مكروه " لأنه عليه الصلاة والسلام «لعن في الخمر عشرةً وعد منها حاملها»، وله أن الإجارة على الحمل وهو ليس بمعصية، ولا سبب لها وإنما تحصل المعصية بفعل فاعل مختار، وليس الشرب من ضرورات الحمل، لأن حملها قد يكون للإراقة أو للتخليل، فصار كما إذا استأجره لعصر العنب أو قطعه والحديث محمول على الحمل المقرون بقصد المعصية اهـ زاد في النهاية وهذا قياس، وقولهما استحسان، ثم قال الزيلعي: وعلى هذا الخلاف لو آجره دابة لينقل عليها الخمر أو آجره نفسه ليرعى له الخنازير يطيب له الأجر عنده وعندهما يكره". فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144008200048
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن