بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

دراز ایپ کی گیم میں اسکور بنانے پر پیسے ملنا


سوال

میں نے دراز شاپنگ ایپ پر ایک گیم کھیل کر پیسے کمائے, اس گیم میں جتنا اسکور کرتے ہیں  اس حساب سے پیسے ملتے  ہیں،  کیا یہ پیسے میرے لیے جائز ہیں؟  یا مجھ اتنے پیسے ثواب کی نیت کے بغیر صدقہ کرنے چاہییں؟ میں نے ایک عالم سے پوچھا وہ کہتے ہیں کہ اگر گیم کھیلنے پر پیسے دیے ہیں اور پیسے دے کر گیم کھیل کے پیسے کمائے ہیں تو وہ پیسے جائز نہیں، اور اگر بغیر پیسے دیے گیم کھیلا ہے تو جائز ہے!

جواب

بصورتِ مسئولہ اس طرح کے  گیم کھیلنا اور  ان کے ذریعہ  پیسے کمانا شرعاً ناجائز ہے، مذکورہ گیم کھیل کر سائل نے کچھ پیسے کمائے ہیں اور اب تک وصول نہیں کیے تو  حکم یہ ہے کہ وہ رقم وصول ہی نہ کرے ، اگر  وصول کرلیے ہیں اور لوٹانا ممکن ہو  تو  انہیں واپس کردے ، ورنہ کسی مستحق کو  صدقہ کردے۔

  کسی بھی قسم کا کھیل جائز ہونے کے لیے مندرجہ ذیل شرائط کا پایا جانا ضروری ہے، ورنہ وہ کھیل لہو ولعب میں داخل ہو نے کی وجہ سے شرعاً ناجائز اور حرام ہوگا:

1۔۔  وہ کھیل بذاتِ خود جائز ہو، اس میں کوئی ناجائزبات نہ ہو۔

2۔۔  اس کھیل میں کوئی دینی یا دنیوی منفعت  ہو، مثلاً جسمانی  ورزش وغیرہ ، محض لہو لعب یا وقت گزاری کے لیے نہ کھیلا جائے۔

3۔۔  کھیل میں غیر شرعی امور کا ارتکاب نہ کیا جاتا  ہو، مثلاً جوا وغیرہ۔

4۔۔ کھیل میں اتنا غلو نہ کیا جائے  کہ شرعی فرائض میں کوتاہی یا غفلت پیدا ہو۔

         حاصل یہ ہے کہ آج کل جو   آن لائن گیمز  ہیں، ان میں مذکورہ خرابیاں پائی جاتی ہیں، نیز ان میں مشغول ہوکر  شرعی فرائض اور واجبات میں کوتاہی  اور غفلت برتی جاتی ہے؛ اس لیے شرعاً ان کا کھیلنا اور اس کے ذریعہ پیسے کمانا شرعاً ناجائز ہے ۔

روح المعانی میں ہے:

’’ولهو الحديث على ما روي عن الحسن كل ما شغلك عن عبادة الله تعالى وذكره من السمر والأضاحيك والخرافات والغناء ونحوها‘‘. (تفسیر الآلوسي (11 / 66)، سورة لقمان، ط:دار الکتب العلمیة)

تکملة فتح الملهم میں ہے:

’’فالضابط في هذا . . . أن اللهو المجرد الذي لا طائل تحته، وليس له غرض صحيح  مفيد في المعاش ولا المعاد حرام أو مكروه تحريماً، . . . وما كان فيه غرض  ومصلحة دينية أو دنيوية، فإن ورد النهي  عنه من الكتاب أو السنة . . . كان حراماً أو مكروهاً تحريماً، ... وأما مالم يرد فيه النهي عن الشارع وفيه فائدة ومصلحة للناس، فهو بالنظر الفقهي علي نوعين ، الأول ما شهدت التجربة بأن ضرره أعظم من نفعه ومفاسده أغلب علي منافعه، وأنه من اشتغل به الهاه عن ذكر الله  وحده وعن الصلاة والمساجد التحق ذلك بالمنهي عنه لاشتراك العلة فكان حراماً أو مكروهاً، والثاني ماليس كذالك  فهو أيضاً إن اشتغل به بنية التلهي والتلاعب فهو مكروه، وإن اشتغل به لتحصيل تلك المنفعة وبنية استجلاب المصلحة فهو مباح،  بل قد ير تقي إلى درجة الاستحباب أو أعظم منه . . . وعلي هذا الأصل فالألعاب التي يقصد بها رياضة الأبدان أو الأذهان جائزة في نفسها مالم يشتمل علي معصية أخري، وما لم يؤد الانهماك فيها إلى الاخلال بواجب الإنسان في دينه و دنياه‘‘. (تکملة فتح الملهم، قبیل کتاب الرؤیا، (4/435) ط:  دارالعلوم کراچی) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144012201137

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں