''عمان'' میں رہتے ہوئے حنفی شخص مثلِ ثانی ہی میں عصر کی نماز پڑھے گا یا اپنے مقامی امام کے پیچھے مثلِ اول ہی میں؟ اور باقی نمازیں بھی حنفی مسلک کے اعتبار ہی سے پڑھے گا؟
فقہ حنفی میں مفتی بہ قول کے مطابق عصر کی نماز کے وقت کی ابتدا ہر چیز کے سائے کے (زوال کے وقت کے سائے کے علاوہ) دو مثل یعنی دوگنا ہوجانے کے بعد ہوتی ہے ؛ اس لیے اس وقت سے قبل عصر کی نماز پڑھنا درست نہیں ہے ؛ لہذا مثلِِ ثانی سے قبل عصر کی نماز کی ادائیگی درست نہیں۔ اگر کسی حنفی کی اقتدا میں وقت داخل ہونے کے بعد باجماعت نماز ادا کرنا ممکن ہو تو جماعت سے نماز ادا کرے۔ عصر کے علاوہ دیگر نمازیں بھی اپنے اپنے اوقات میں پڑھنا ضروری ہیں۔
'' فتاوی شامی '' میں ہے:
''قال ابن عابدين ناقلاً عن السراج:هل إذا لزم من تأخيره العصر إلى المثلين فوت الجماعة يكون الأولى التأخير أم لا؟ الظاهر الأول ، بل يلزم لمن اعتقد رجحان قول الإمام، تأمل ، ثم رأيت في آخر شرح المنية ناقلاً عن بعض الفتاوى أنه لو كان إمام محلته يصلي العشاء قبل غياب الشفق الأبيض، فالأفضل أن يصليها وحده بعد البياض''۔ (۱: ۳۵۹ ط: سعيد) فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 143909201076
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن