بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے بعد کے خلفاء راشدین کی بیس رکعات باجماعت تراویح میں شرکت


سوال

کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ  نے تراویح کی جماعت کرانے کا حکم تو دیا مگر خود اس جماعت میں شرکت نہیں کی، جیسا کہ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ  کا تراویح کی جماعت میں شرکت کرنے کا ثبوت نہیں۔ اگر ایسا ہی ہے تو اس کی کیا وجہ ہو سکتی ہے؟ اور کیا ان کے بعد باقی دو خلفاء راشدین کا بھی یہی عمل تھا کہ وہ تراویح کی جماعت میں شرکت نہیں کرتے تھے؟

جواب

’’تراویح‘‘ بیس رکعات جماعت کے ساتھ رسولِ اکرم ﷺ کے زمانہ میں بھی پڑھی جاتی تھی، یہ حضرت عمر رضی اللہ کے زمانہ میں شروع نہیں ہوئی ہے، مصنف ابن ابی شیبہ ، معجم طبرانی اور بیہقی میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم رمضان میں وتر کے علاوہ بیس رکعات پڑھتے تھے۔

 حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں نماز پڑھائی اور آپ کی اقتدا میں لوگوں نے بھی نماز پڑھنا شروع کردی، اگلی دن لوگوں زیادہ ہوگئے، تیسرے دن لوگ جمع ہوئے، لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم باہر نہ نکلے، جب صبح ہوئی آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ میں نے وہ دیکھا جو تم لوگوں نے کیا، مجھے تم لوگوں کے پاس آنے سے صرف یہ بات رکاوٹ تھی کہ یہ نماز تم پر فرض کر دی جائے گی، یہ رمضان کا واقعہ تھا۔

اور  ’’صحیح بخاری ‘‘  میں حضرت  زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے رمضان المبارک میں ایک الگ جگہ بنائی، وہ چٹائی کا ایک چھپر تھا، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے وہاں کئی راتیں نماز پڑھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے آپ کی اقتدا میں نماز پڑھی۔

ان روایات  سے معلوم ہوا کہ باجماعت تراویح کا ثبوت نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے ثابت ہے، اور اس میں آپ ﷺ کے ساتھ صحابہ کرام نے بھی شرکت کی ہے، البتہ کن صحابہ نے شرکت کی اور کس نے نہیں کی، اس کی تفصیل نہیں ہے، اور  فرضیت کے اندیشہ سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے عمداًجماعت کی  مداومت نہیں فرمائی، تاہم صحابہ کرام فرداً فرداً اس کو پڑھا کرتے تھے۔

عہدِِ صحابہ میں جب یہ اندیشہ نہ رہا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے سب کو ایک امام پر اکھٹا کرکے باجماعت تراویح کا فیصلہ کیا، حضراتِ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے ان سے موافقت کی، اس لیے یہ بہ منزلہ اجماع کے تھا,  چناں چہ ’’موطا امام مالک‘‘  میں ہے کہ  عبد الرحمن بن عبد القاری فرماتے ہیں کہ میں رمضان المبارک کے مہینے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ مسجد کی جانب نکلا، دیکھا کہ لوگ مختلف جماعتوں میں بنٹے ہوئے ہیں، کچھ  اکیلے نماز پڑھ رہے ہیں، کچھ کے ساتھ ایک چھوٹی جماعت شریک ہے، یہ دیکھ کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میری رائے یہ ہے کہ اگر یہ لوگ ایک قاری کے پیچھے جمع ہو کر نماز پڑھیں تو زیادہ مناسب ہوگا، پھر آپ نے اس کا پختہ ارادہ فرمایا اور سب کو حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ پر جمع فرمایا ، جب ایک دوسری رات میں آپ رضی اللہ عنہ کے ساتھ نکلا تو لوگ اپنے قاری یعنی حضرت ابی بن کعب کے ساتھ نماز پڑھ رہے تھے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ یہ نیا کام بہت ہی اچھا ہے۔ اور وہ نماز جس کے وقت تم سوتے ہو وہ اس سے بہتر جو تم قائم کرتے ہو، یعنی رات کے آخری پہر کی نماز، اور لوگ اس وقت رات کے ابتدائی حصے میں یہ قیام کیا کرتے تھے۔

نیز اس دور اور اس کے بعد کے ادوار میں مسلمانوں کا یہی عمل تھا،  ’’موطا امام مالک‘‘  میں یزید بن رومان رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ لوگ حضرت عمر رضی اللہ عنہما کے زمانے میں رمضان میں وتر کے ساتھ تئیس رکعات پڑھا کرتے تھے۔

روایات سے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ کا جماعت کا حکم دینا اور عہدِ صحابہ کا عمومی حال معلوم ہوتا ہے، فرداً فرداً ہر ایک کی تفصیل نہیں ملتی، صحابہ کرام نیکی کے جذبہ میں ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والے تھے، اور ان کے قول وفعل میں تضاد نہیں تھا، لہذا صرف مذکورہ روایت کی وجہ سے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تراویح باجماعت نہیں پڑھتے تھے؛ کیوں کہ اس میں جیسے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی مسجدِ نبوی کی جماعت میں شرکت کی صراحت نہیں ہے، اسی طرح یہ بھی صراحت نہیں ہے کہ انہوں نے شرکت نہیں کی، ممکن ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ نے مذکورہ ارشاد فرمانے کے بعد جماعت میں شرکت بھی کی ہو، اور یہ بھی ممکن ہے کہ جماعت میں شرکت کے بعد یہ ارشاد فرمادیا ہو، اور روایتِ حدیث میں ایسا ہوتا رہتاہے کہ راوی واقعے کی ترتیب اور تقدیم وتاخیر کا لحاظ رکھے بغیر مجموعی صورتِ حال کی ترجمانی کردیتے ہیں۔ نیز یہ بھی ضروری نہیں ہے کہ وہ کسی خاص صحابی کی اقتدا میں نماز پڑھتے ہوں، بلکہ ممکن ہے خود جماعت سے پڑھتے ہوں یا امیر المومنین ہونے کی حیثیت سے انتظامی ذمہ داریوں کی وجہ سے بعد میں پڑھ لیتے ہوں، جیساکہ آپ رضی اللہ عنہ کی عادتِ مبارکہ مدینہ منورہ میں گشت کرکے لوگوں کے احوال کی خبر گیری کی تھی۔

یہ بھی یاد رہے کہ امیرالمؤمنین ہونے کی حیثیت سے فرض نمازوں کی جماعت تو آپ رضی اللہ عنہ ہی فرماتے تھے، اور یقیناً رمضان المبارک میں بھی فرائض کی جماعت آپ ہی کرتے ہوں گے، اور درج بالا روایت سے یہ بھی معلوم ہوچکاکہ صحابہ کرام کا یہ اجتماع رات کے ابتدائی حصے میں یعنی عشاء کے بعد ہوتاتھا، یہ بات حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے بعید معلوم ہوتی ہے کہ عشاء کی نماز جماعت سے پڑھاکر بغیر وجہ کے سب لوگوں کو جماعت سے تراویح ادا کرتاہوا چھوڑ کر خود تشریف لے جایا کرتے ہوں! اور اگر وہ ایسا کرتے تو روایت میں یہ صراحت ضرور ہوتی کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو تو جمع کیا لیکن خود تراویح کی نماز ادا نہیں کیا کرتے تھے۔ اس ساری تفصیل سے یہ بات معلوم ہوئی کہ مذکورہ روایت کے عمومی الفاظ سے یہ استدلال نہیں کیا جاسکتا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ خود تراویح میں شرکت نہیں فرماتے تھے۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بعد کے خلفاء راشدین کے ادوار میں بھی یہی عمل رہا ہے، حضرت سائب بن یزید رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں رمضان میں لوگ بیس رکعتیں پڑھا کرتے تھے، اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دور میں شدّتِ قیام کی وجہ سے اپنی لاٹھیوں پر ٹیک لگاتے تھے۔

 ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ جن کا وصال عہدِ عثمانی کے اواخر میں ہوا ہے، وہ بھی بیس پڑھا کرتے تھے۔ (قیام اللیل ص:۹۱، طبع جدید ص:۱۵۷)

”ابوعبدالرحمن سلمی کہتے ہیں کہ: حضرت علی رضی اللہ عنہ نے رمضان میں قاریوں کو بلایا، اور ان میں ایک شخص کو حکم دیا کہ بیس رکعتیں پڑھایا کرے، اور وتر حضرت علی رضی اللہ عنہ خود پڑھایا کرتے تھے۔“

’’عن أبي عبدالرحمٰن السلمي عن علي رضی الله عنه أنه دعا القراء في رمضان فأمر منهم رجلًا یصلي بالناس عشرین رکعةً، وکان علي یوتر بهم‘‘. (سننِ کبریٰ بیہقی ج:۲ ص:۴۹۶) (اس کی سند میں حماد بن شعیب پر محدثین نے کلام کیا ہے، لیکن اس کے متعدّد شواہد موجود ہیں، ابوعبدالرحمن سلمی کی یہ روایت شیخ الاسلام حافظ ابنِ تیمیہ ؒ نے منہاج السنۃ میں ذکر کی ہے اور اس سے استدلال کیا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی جاری کردہ تراویح کو اپنے دورِ خلافت میں باقی رکھا۔(منہاج السنۃ ج:۴ ص:۲۲۴)

مذکورہ روایت سے معلوم ہوتا ہے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ خود بھی جماعت میں شامل ہوتے تھے، اور وتر کی نماز خود پڑھاتے تھے۔

’’أخبرنا أبوعبدالله الحسین بن محمد الحسین بن فنجویه الدینوري بالدامغان، ثنا أحمد بن محمد بن إسحاق السني، أنبأنا عبدالله بن محمد بن عبدالعزیز البغوي، ثنا علي بن الجعد أنبأنا ابن أبي ذئب عن یزید بن خصیفة عن السائب بن یزید قال: کانوا یقومون على عهد عمر بن الخطاب رضي الله عنه في شهر رمضان بعشرین رکعةً، قال: وکانوا یقرؤن بالمئین، وکانوا یتوکون علی عصیهم في عهد عثمان بن عفان رضي الله عنه من شدة القیام‘‘. (سننِ کبریٰ ج:۲ ص:۴۹۶)

موطأ مالك (2/ 158):

’’حَدَّثَنِي مَالِك عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدٍ الْقَارِيِّ أَنَّهُ قَالَ: خَرَجْتُ مَعَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ فِي رَمَضَانَ إِلَى الْمَسْجِدِ فَإِذَا النَّاسُ أَوْزَاعٌ مُتَفَرِّقُونَ، يُصَلِّي الرَّجُلُ لِنَفْسِهِ، وَيُصَلِّي الرَّجُلُ فَيُصَلِّي بِصَلَاتِهِ الرَّهْطُ، فَقَالَ عُمَرُ: وَاللَّهِ إِنِّي لَأَرَانِي لَوْ جَمَعْتُ هَؤُلَاءِ عَلَى قَارِئٍ وَاحِدٍ لَكَانَ أَمْثَلَ، فَجَمَعَهُمْ عَلَى أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ، قَالَ: ثُمَّ خَرَجْتُ مَعَهُ لَيْلَةً أُخْرَى وَالنَّاسُ يُصَلُّونَ بِصَلَاةِ قَارِئِهِمْ، فَقَالَ عُمَرُ: نِعْمَتِ الْبِدْعَةُ هَذِهِ، وَالَّتِي تَنَامُونَ عَنْهَا أَفْضَلُ مِنْ الَّتِي تَقُومُونَ يَعْنِي آخِرَ اللَّيْلِ وَكَانَ النَّاسُ يَقُومُونَ أَوَّلَهُ‘‘.

موطأ مالك (2/ 159):

’’ وحَدَّثَنِي عَنْ مَالِك عَنْ يَزِيدَ بْنِ رُومَانَ أَنَّهُ قَالَ: كَانَ النَّاسُ يَقُومُونَ فِي زَمَانِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ فِي رَمَضَانَ بِثَلَاثٍ وَعِشْرِينَ رَكْعَةً‘‘.

شرح المشكاة للطيبي الكاشف عن حقائق السنن (4/ 1233):

’’عن زيد بن ثابت: أن النبي صلى الله عليه وسلم اتخذ حجرةً في المسجد من حصير فصلي فيها ليالي، حتى اجتمع عليه ناس، ثم فقدوا صوته ليلةً، وظنوا أنه قد نام، فجعل بعضهم يتنحنح ليخرج إليهم. فقال: ((مازال بكم الذي رأيت من صنيعكم،حتى خشيت أن يكتب عليكم، ولو كتب عليكم ما قمتم به، فصلوا أيها الناس في بيوتكم، فإن أفضل صلاة المرء في بيته إلا الصلاة المكتوبة)). متفق عليه‘‘.

نصب الراية (2/ 152):

’’عن عروة بن الزبير عن عائشة أن النبي صلى الله عليه وسلم صلى في المسجد، فصلى بصلاته ناس، ثم صلى من القابلة، فكثر الناس، ثم اجتمعوا من الليلة الثالثة، فلم يخرج إليهم رسول الله صلى الله عليه وسلم، فلما أصبح، قال: قد رأيت الذي صنعتم، فلم يمنعني من الخروج إليكم، إلا أني خشيت أن تفرض عليكم، وذلك في رمضان، انتهى. وفي لفظ لهما: ولكن خشيت أن تفرض عليكم صلاة الليل، وذلك في رمضان، وزاد البخاري فيه في "كتاب الصيام": فتوفي رسول الله صلى الله عليه وسلم، والأمر على ذلك، انتهى.... وعن ابن شهاب عن عروة بن الزبير عن عبد الرحمن بن عبد القارئ، أنه قال: خرجت مع عمر بن الخطاب ليلةً في رمضان إلى المسجد، فإذا الناس أوزاع متفرقون، يصلي الرجل لنفسه، ويصلي الرجل، فيصلي بصلاته الرهط، فقال عمر: إني أرى لو جمعت هؤلاء على قارئ واحد لكان أمثل، ثم عزم، فجمعهم على أبي بن كعب، ثم خرجت معه ليلةً أخرى، والناس يصلون بصلاة قارئهم، فقال عمر: "نعمت البدعة هذه، والتي ينامون عنها أفضل عن التي يقومون"، يريد آخر الليل، وكان الناس يقومون أوله، انتهى. وهذا يدل على أنها تركت إلى زمان عمر، دليل أن عمر جمع الناس على أبي بن كعب، والله أعلم، رواه البخاري أيضاً، وعن أبي ذر نحوه، رواه أصحاب السنن، وحسنه الترمذي، وصححه، وعن النعمان بن بشير نحوه، رواه النسائي، قال النووي في "الخلاصة": بإسناد حسن.

أحاديث العشرين ركعةً: روى ابن أبي شيبة في "مصنفه". والطبراني في "معجمه"، وعنه البيهقي من حديث إبراهيم بن عثمان أبي شيبة عن الحكم عن مقسم عن ابن عباس أن النبي صلى الله عليه وسلم كان يصلي في رمضان عشرين ركعةً، سوى الوتر، انتهى. ورواه الفقيه أبو الفتح سليم بن أيوب الرازي في "كتاب الترغيب"، فقال: ويوتر بثلاث، وهو معلول، بأبي شيبة إبراهيم بن عثمان، جد الإمام أبي بكر بن أبي شيبة، وهو متفق على ضعفه، ولينه ابن عدي في "الكامل" ... حديث آخر: موقوف، رواه البيهقي في "المعرفة" أخبرنا أبو طاهر الفقيه ثنا أبو عثمان البصري ثنا أبو أحمد محمد بن عبد الوهاب ثنا خالد بن مخلد ثنا محمد بن جعفر حدثني يزيد بن خصيفة عن السائب بن يزيد، قال: كنا نقوم في زمن عمر بن الخطاب بعشرين ركعةً والوتر، انتهى. قال النووي في "الخلاصة": إسناده صحيح، وكأنه ذكره من جهة السنن لا من جهة المعرفة، فإنه ذكره بزيادة.

حديث آخر: رواه مالك في "الموطأ" عن يزيد بن رومان، قال: كان الناس يقومون في زمان عمر بن الخطاب في رمضان بثلاث وعشرين ركعةً. انتهى. ومن طريق مالك، رواه البيهقي في "المعرفة" بسنده ومتنه، وفي رواية في "الموطأ": بإحدى عشرة ركعةً، قال البيهقي: ويجمع بين الروايتين: بأنهم قاموا بإحدى عشرة، ثم قاموا العشرين، وأوتروا بثلاث، قال: ويزيد بن رومان لم يدرك عمر، انتهى‘‘. فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144008200991

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں