آ پ کی ویب سائٹ پر 2 فتوے دیکھے جو سرا سر غلط ہیں. ایک فتوی نمبر 143908200670 جس میں کسی نے سوال کیا ہے کہ اگر کوئی اپنی بیوی کو بولے ’’توآزاد ہے‘‘ اور طلاق کی طلاق کی نیت کے بغیر بولے تو کیا طلاق ہو جاتی ہے؟ آپ کے فتوے میں جواب ہیں ’’تو آزاد ہے‘‘ کنائے کے الفاظ نہیں، اس لیے اس میں نیت شرط نہیں، اور طلاقِ بائن کا فتوی دے دیا، آپ نے جب کہ ایسا نہیں. ’’تو آزاد ہے‘‘ کنائے کے الفاظ ہیں اور اس میں بغیر نیت طلاق نہیں ہوتی. |
آپ نے سوال میں جن دو مسئلوں کا ذکر کیا ہے ان دونوں سوالات کے جوابات بالکل درست ہیں اور ان کی اصلاح کی ضرورت نہیں، دونوں مسئلوں کی وضاحت مختصراً دوبارہ کیے دیتے ہیں: 1. اگر کوئی شوہر اپنی بیوی سے یوں کہتا ہے کہ ’’تو آزاد ہے‘‘ تو اس سے طلاق واقع ہونے میں نیت کی احتیاج ہو گی یا نہیں، اس میں علماء کے درمیان اختلاف ہے، ہمارے نزدیک یہ لفظ طلاق کے لیے صریحِ بائن ہے، یعنی جس طرح صریح الفاظ سے طلاق بغیر نیت کے واقع ہو جاتی ہے اسی طرح اس لفظ سے بغیر نیت کے طلاق واقع ہو جاتی ہے،مثلاً لفظِ حرام سے متعلق متقدمین میں یہ ہی معروف تھا کہ اس سے طلاق اسی وقت واقع ہو گی جب طلاق کی نیت ہو اور طلاق کی نیت کے بغیر طلاق واقع نہیں ہو گی، لیکن عرف میں جب یہ لفط طلاق کے لیے بالکل معروف ہو گیا تو متاخرین نے بغیر نیت کے طلاق واقع ہونے کا قول فرما لیا؛ لہذا یہ ہی معاملہ اردو زبان میں لفظ آزاد کے ساتھ ہوا کہ لفظ آزاد گو اپنی حقیقت اور اصل کے اعتبار سے طلاق کے لیے صریح نہیں، بلکہ کنایہ الفاظ میں سے تھا، لیکن جب عرف میں اس کا استعمال کثرت سے طلاق کے لیے کیا جانے لگا تو یہ طلاق کے باب میں صریح کہلایا جانے لگا اور پھر اس سے طلاق کی نیت کے بغیر ہی طلاق واقع ہونے کا فتویٰ دیا جانے لگا، لفظ آزاد سے متعلق یہی قول حضرت تھانوی رحمہ اللہ، مفتی عبدالرحیم لاجپوری رحمہ اللہ، مفتی رشید احمد لدھیانوی رحمہ اللہ اور مولانا یوسف لدھیانوی رحمہ اللہ نے بھی اختیار فرمایا ہے۔ اس مسئلہ میں چوں کہ دوسری رائے بھی ہے تو ہو سکتا ہے کہ آپ تک دوسری رائے پہنچی ہو جس کی وجہ سے آپ کو اس جواب پر اشکال ہوا۔ الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 250): الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 252): "فإذا قال: رها کردم أي سر حتک یقع به الرجعي مع أن أصله کنایة أیضاً، وما ذاک إلالأ نه غلب في عرف الفرس استعماله في الطلاق، وقد مرأن الصریح مالم یستعمل إلا في الطلاق من أي لغةٍ کانت، لکن لما غلب استعمال حلال اﷲ في البائن عند العرب والفرس وقع به البائن، ولو لا ذلک لوقع به الرجعي". (شامی، باب الکنایات ج۔۲ ص ۶۳۸) دیکھیے:امداد الفتاوی 2-249 ("الجواب)بندہ کی رائے یہ ہے کہ لفظ آزاد کر دی بھی مانند گذاشتم و چھوڑ دی کے ملحق بصریح ہے" ۔ فتاوی رحیمیہ جلد 8-304(حضرت مولانا مفتی عبد الرحیم صاحب لاجپوری) احسن الفتاوی میں ہے: "جواب: اس تحریر میں طلاق کے تین جملے ہیں (1) جاؤ (2) اپنے گھر چلی جاؤ (3) میں نے آزاد کر دیا ۔۔۔۔۔۔ تیسرا جملہ طلاق صریحِ بائن ہے؛ لہذا اس سے طلاق کی نیت ہو یا نہ ہو بہرحال ایک طلاق بائن ہو گئی"۔ آپ کے مسائل اور ان کا حل میں ہے: "اُردو محاورے میں ”آزاد کرتا ہوں“ کے الفاظ صریح طلاق کے الفاظ ہیں، اس لیے مولوی صاحب کا یہ کہنا تو غلط ہے کہ طلاق کے الفاظ استعمال نہیں کیے، البتہ چوں کہ یہ لفظ صرف ایک بار استعمال کیا اس لیے ایک طلاق واقع ہوئی"۔ 2. اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو یہ کہتا ہے کہ "رشتہ ختم" تو یہ الفاظ طلاق کے لیے کنائی الفاظ ہی میں سے ہیں، اور اس کے لیے عربی الفاظ میں سے بطورِ حوالہ جن الفاظ کو ذکر کیا جاتا ہے وہ یہ ہیں: " لا نكاح بيني وبينك، أو قال: لم يبق بيني وبينك نكاح". اور ان الفاظ کے متعلق فقہاء نے یہی لکھا ہے کہ یہ کنایہ الفاظ ہیں، اور ان سے طلاق اسی وقت واقع ہو گی جب ان الفاظ سے طلاق کی نیت کی جائے، لہذا یہ جواب بھی بالکل درست ہے۔ الفتاوى الهندية (1/ 375): بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (3/ 107): ’’وَلَوْ قَالَ: فَسَخْتُ النِّكَاحَ بَيْنِي وَبَيْنَكِ، وَنَوَى الطَّلَاقَ يَقَعُ الطَّلَاقُ؛ لِأَنَّ فَسْخَ النِّكَاحِ نَقْضُهُ، فَكَانَ فِي مَعْنَى الْإِبَانَةِ‘‘. المحيط البرهاني في الفقه النعماني (3/ 236): علمی اعتراض کرنا اچھی بات ہے، لیکن اس کے لیے شائستہ انداز اختیار کرنا ہی مناسب ہے۔ فقط واللہ اعلم |
فتوی نمبر : 144001200069
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن