بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

بول الضفدع نجس


سوال

ما حكم بول الضفدع البري والبحري؟ أما نفس الضفدع فحكمه معلوم لدينا، ولكن حكم بوله مشكل عندنا، فأجب عنه بيانًا شافيًا!

جواب

بول الضفدع نجس نجاسةً غليظةً، سواء كان بريًّا أو بحريًّا؛ إلا أنه یعفی لو بال في البیر أو العین للضرورة،كما في الفتاوي الهندية:

"وَبَوْلُ مَا لَايُؤْكَلُ وَالرَّوْثُ وَأَخْثَاءُ الْبَقَرِ وَالْعَذِرَةِ وَنَجْوُ الْكَلْبِ وَخُرْءُ الدَّجَاجِ وَالْبَطِّ وَالْإِوَزِّ نَجِسٌ نَجَاسَةً غَلِيظَةً، هَكَذَا فِي فَتَاوَى قَاضِي خَانْ". (الْفَصْلُ الثَّانِي فِي الْأَعْيَانِ النَّجِسَةِ، ١ / ٤٦)

و في إمداد الفتاوى:

سوال (۱۰۹) : قدیم ۱/ ۱۲۱- بول غوک پاک است یانہ؟ اگرناپاک کدام ناپاک؟

الجواب : ج؍۱ص؍۲۹۳:في الدر المختار في النجاسة الغلیظة: "وبول غیر مأکول"، پس بنابریں قاعدہ بول غوک نجس غلیظ است، البتہ درغوکے کہ درآب می ماندحکم نجاست نکردہ شود للضرورۃ۔کما في الدر المختار مسائل البیر: ولا نزح في بول فارة علی الأصح. وفي رد المحتار: "ولعلهم رجحوا القول بالعفو للضرورة".  (۹؍جمادی الاولیٰ ۱۳۳۸؁ھ(تتمہ اولیٰ ص۵) (امداد الفتاوی، کتاب الطہارہ، بعنوان: مینڈک کا پیشاب،  ١ / ٣٦٢)  فقط و اللہ اعلم


فتوی نمبر : 144103200797

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں