ایک شخص کے چار بیٹے اور 2بیٹیاں ہیں ۔ اس نے اپنی زندگی میں ایک بیٹے کو اس کاحصہ دے دیا تھا بیٹے کے شدید اصرار پر۔ اس کے بعد اس شخص کا انتقال ہوگیا ہے۔ اس کے دوسرے بیٹے نے والد کے انتقال کے بعد والد کے گھر پر چھ لاکھ روپے کا خرچہ کرواکراس گھر کو کرایہ پر دے دیا۔ اب سوال یہ ہے کہ جس بیٹے کو اس والد نے حصہ دے دیا تھا اب دوبارہ میراث میں شریک ہوگا یا نہیں؟ اور جس بیٹے نے چھ لاکھ خرچ کیے وہ اس مکان کی میراث سے نکالے جائیں گے یا نہیں؟ یاد رہے کہ کرایہ وہ بیٹا خود وصول کرتا رہا ہے جس نے گھر تعمیر کروایا تھا۔
صورتِ مسئولہ میں جس بیٹے نے والد کی زندگی میں میراث کا حصہ وراثت میں اپنے حصے سے دست برداری کی شرط کے ساتھ لیاتھا تو اس کا اب وراثت میں حصہ نہیں ہے۔
جس بیٹے نے والد کے مکان پر چھ لاکھ کا خرچہ کیا ہے، اگر سب ورثاء کے علم میں لاکر ان کی طرف سے کیا ہے تو وہ خرچہ سب میں برابری کے ساتھ تقسیم ہوگا(یعنی پہلے اسے چھ لاکھ دیے جائیں گے باقی پیسے اس کے بعد تقسیم ہوں گے) اور اگر خود سے کیا ہے تو وہ اس کی طرف سے تبرع اور احسان تھا اور اس کو الگ سے پیسے نہیں دیے جائیں گے۔
موروثی مکان کا کرایہ تمام ورثاء میں وراثت کے حصوں کے بقدر تقسیم ہوتا ہے؛ لہذا جس نے کرایہ وصول کیا ہے، اس پر لازم ہے کہ دیگر ورثاء کو اس میں سے ان کا حق دے دے۔
العقود الدرية في تنقيح الفتاوى الحامدية (2 / 226):
"المتبرع لايرجع بما تبرع به على غيره كما لو قضى دين غيره بغير أمره". فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144106200456
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن