بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

فرائض کے بعد اجتماعی دعا اور عاشورہ کے روزوں کی نفی کرنا


سوال

جامعہ کے فتوی  144104201086 میں دعا کے بارے میں بتایا گیا ہے، کراچی کے دیوبند مسلک کے ایک معروف مدرسے کے مفتی صاحب اس کی نفی فرمارہے ہیں اور عملًا اپنی مسجد میں اس کو ترک کرنے کی ترغیب دے رہے ہیںِ، اسی طرح وہ عاشورہ کے روزوں کی بھی اعلانیہ نفی فرماتے ہیں، دونوں معاملوں میں دار العلوم اور جامعہ ہذہِ کی رائے ایک ہے۔ غیر مقلد یا اہلِ حدیث کہیں تو اور بات ہے، لیکن یہ حضرت تو ہمارے حنفی و دیوبندی مسلک سے تعلق رکھتے ہیں۔ ہماری راہ نمائی فرمائیں کہ ہم کیا کریں؟

جواب

فتوی نمبر   144104201086 میں یہ بات تفصیل سے ذکر کی جاچکی ہے کہ فرض نماز کے بعد ہاتھ اٹھاکر اجتماعی دعا کرنا سنتِ مستمرہ دائمہ اور لازم تو نہیں ہے، لیکن فرض نمازوں کے بعد نفسِ دعا اور اجتماعی حالت میں دعا کی اصل ثابت بھی ہے، اس لیے نہ تو اسے بدعت اور قابلِ ترک کہنے پر اصرار کرنا درست ہے اور  نہ ہی اس کو ضروری اورلازم سمجھ کر کرنا صحیح ہے، اور اجتماعی دعا کا التزام نہ کرنے والوں اور اجتماعی دعا کو لازم و ضروری سمجھے بغیر کرنے والوں دونوں قسم کے لوگوں پر طعن وتشنیع کرنا بھی غلط ہے، لہٰذا اگر کوئی امام صاحب کبھی کبھار لوگوں کی تربیت کے واسطہ مسئلے کی وضاحت کرتے ہوئے فرض نماز کے بعد اجتماعی دعا کو ترک کردیتے ہوں یا سری (آہستہ آواز سے) دعا کرتے ہوں تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، البتہ مستقل طور پر فرض نماز کے بعد سرے سے دعا مانگنے کو ہی ترک کردینا درست نہیں ہے۔

باقی مذکورہ مفتی صاحب اگر عاشورہ کے روزوں کی نفی کرتے ہیں تو ہمیں اس بات کا علم نہیں کہ وہ کس وجہ سے  اس کی نفی کرتے ہیں؟ اور کس درجے نفی کرتے ہیں؟ اگر وجہ معلوم ہوجائے تو اس کی شرعی وضاحت کی جاسکے گی۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144105200877

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں