اگر کوئی اپنی بیوی سے کہے کہ اگر تیرا باپ میرے گھر میں داخل ہوا تو تجھے طلاق، اگر اس عورت کا خاوند گھر تبدیل کرے اور عورت کا باپ ان کے گھر میں داخل ہوتوپھر کیا حکم ہے؟
عرفِ عام میں ’’میرے گھر‘‘ سے مراد صرف جگہ ہی نہیں ہوتی، بلکہ اصل مقصود نسبت ہوتی ہے، اور صورتِ مسئولہ میں مذکورہ شخص نے یہی الفاظ استعمال کیے ہیں کہ "اگر تیرا باپ میرے گھر میں داخل ہوا تو تجھے طلاق" لہذا اب یہ شخص اگر ایک جگہ تبدیل کرکے دوسری جگہ رہائش اختیار کرتا ہے تو بھی چوں کہ عرف کے لحاظ سے اس گھر کی نسبت اسی شخص کی جانب ہوگی؛ لہذا بیوی کے والد کے اس گھر میں داخلےسے بیوی پر ایک طلاقِ رجعی واقع ہوجائے گی۔
فتاوی شامی میں ہے :
"(حلف لايدخل دار فلان يراد به نسبة السكنى إليه ) عرفاً ولو تبعاً أو بإعارة باعتبار عموم المجاز، ومعناه كون محل الحقيقة فرداً من أفراد المجاز ... كان المعتبر نسبة السكنى عرفًا ولايخفي أن بيت المرأة في العرف ما تسكنه تبعًا لزوجها، وانظر ما سنذكره آخر الأيمان (قوله: أو بإعارة) أي لا فرق بين كون السكنى بالملك أو الإجارة أو العارية إلا إذا استعارها ليتخذ فيها وليمةً فدخلها الحالف فإنه لايحنث، كما في العمدة، والوجه فيه ظاهر". (3/760)
دررالحکام میں ہے :
"( حلف لايدخل دار فلان يراد به نسبة السكنى ) بدلالة العادة وهي أن الدار لاتعادى ولاتهجر لذاتها بل لبعض ساكنيها إلا أن السكنى قد تكون حقيقةً وهو ظاهر وقد تكون دلالةً بأن تكون الدار ملكًا له فيتمكن من السكنى فيها فيحنث بالدخول في دار تكون ملكًا لفلان فلايكون هو ساكنًا فيها سواء كان غيره ساكنًا فيها أو لا؛ لقيام دليل السكنى التقديري وهو الملك، صرح به في الخانية والظهيرية". (5/214) فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144107200062
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن