کیا ہم اپنی جگہ بینک کو کرایہ پر دے سکتے ہیں؟ کرایہ کی صورت میں جو بھی آمدنی ہوگی وہ حلال ہوگی؟
بینک ایک سودی ادارہ ہے، جہاں سودی لین دین ہوتاہے، جو گناہِ کبیرہ ہے، اور قرآنِ کریم میں اس معاملہ کو اللہ اور اس کے رسول ﷺکے ساتھ جنگ کے متردف قرار دیاگیاہے، ایسے سودی ادارے کو اپنی جائیداد کرایہ پردینا گناہ کے کام میں معاونت ہے جوکہ شرعاً ناجائزہے، اورجوکرایہ بینک ادا کرے گا، ظاہرہے وہ اپنی سودی آمدنی سے ادا کرے گاجو کہ جائز نہیں۔لہذاکسی بھی بینک کو اپنی جائیداد کرایہ پر دینا اور کرایہ استعمال میں لانا درست نہیں ہے۔
یادرکھیں! حرام چاہے جتنا بھی زیادہ نظر آئے، بالآخر اس کی انتہا ہلاکت، بربادی، بے برکتی اور اللہ تعالیٰ کی ناراضی ہے۔ اس کے بالمقابل حلال میں اللہ تعالیٰ کی رضا کے ساتھ ساتھ برکت ہی برکت ہے۔ لہذا قلیل حلال پر قناعت کی جائے اور کثیر حرام کی طلب نہ کی جائے۔فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144105200895
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن