بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اپنا حق جلد وصول کرنے کے لئے رقم دینا


سوال

 میں نے سعودی عرب کے قانون کے مطابق لائسنس کے حصول کے لئے  داخلہ لیا، مجھے 10 دن کا مدرسہ دیا لیکن مدرسہ 47 دن کے بعد شروع ہوگا،  اب یہ 47 دن بعد شروع کرنا قانون نہیں بلکہ افسر کی اپنی مرضی ہے،  میں 300 ریال محض اس لئے دے رہا ہوں کہ مدرسہ جلدی شروع ہوجائے، اب یہ 300 ریال دینا جس کی وجہ سے نہ کسی کاحق فوت ہورہا ہے  اور نہ قانون کی خلاف ورزی ہوری ہے بلکہ میں اس مدرسہ کو جلدی کرکے لائسنس کے متعلق  جرمانے سے اپنے آپ کو بچا رہا ہوں کیا یہ دینا رشوت ہے کیا یہ حرام ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں جو تین سو ریال افسر کو دیئے جا رہے ہیں یہ فیس چونکہ قانونی نہیں ہے بلکہ کام جلدی کروانے کی غرض سے دی جا رہی ہے اس لئے یہ رشوت کے زمرے میں آئے گا اور  رشوت لینا اور دینا دونوں ناجائز ہیں، اس لیے حتی الامکان رشوت دینے سے بچا جائے۔

البتہ سمجھنا چاہئے کہ اگر کوئی  جائز کام تمام قانونی تقاضوں کو پورا کرنے اور حق ثابت ہونےکے باوجود صرف رشوت نہ دینے کی وجہ سے  نہ ہورہا ہو تو ایسی صورت میں حق دار  شخص کو چاہیے  اولاً وہ اپنی پوری کوشش کرے کہ رشوت دیے  بغیر کسی طرح (مثلاً حکامِ بالا کے علم میں لاکر یا متعلقہ ادارے میں کوئی واقفیت نکال کر)  کسی طرح اس کا کام ہوجائے،اور جب تک کام نہ ہو  اس وقت تک صبر کرے اور صلاۃ الحاجۃ پڑھ کر اللہ تعالیٰ سے مسئلہ حل ہونے کی دعا مانگتا رہے، لیکن  اگر اس کے باوجود اپنا حق وصول ہوتا نظر نہ آتا ہو اور  شدید ضرورت ہو اور  کوئی دوسرا متبادل راستہ نہ ہو تو  اپنے جائز ثابت شدہ حق کے حصول کے  لیے مجبوراً  رشوت دینے کی صورت میں  دینے والا گناہ گار نہ ہوگا۔

اگر سائل کو  رشوت دینے کی شدید مجبوری نہ ہو  تو ایسی صورت میں سائل کے لئے رشوت دے کر اپنا کام کرانا جائز نہ ہو گا؛ کیونکہ کچھ عرصہ بعد سائل کا لائسنس اس کو مل جائے گا گو کچھ تاخیر سے ہی سہی۔

 سنن أبی داود  میں ہے:
’’عن أبي سلمة، عن عبد الله بن عمرو، قال: «لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم الراشي والمرتشي»‘‘.  (3/ 300،کتاب الأقضیة، باب في کراهیة الرشوة، رقم الحدیث: 3580،ط: المکتبة العصریة)

فتاوی  شامی میں ہے:

’’دفع المال للسلطان الجائر لدفع الظلم عن  نفسه وماله ولاستخراج حق له ليس برشوة يعني في حق الدافع اهـ ‘‘. (6/ 423،  کتاب الحظر والإباحة، فصل في البیع، ط: سعید)

مرقاة المفاتیح میں ہے:

"(وعن عبد الله بن عمرو رضي الله عنهما) : بالواو (قال: «لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم الراشي والمرتشي» ) : أي: معطي الرشوة وآخذها، وهي الوصلة إلى الحاجة بالمصانعة، وأصله من الرشاء الذي يتوصل به إلى الماء، قيل: الرشوة ما يعطى لإبطال حق، أو لإحقاق باطل، أما إذا أعطى ليتوصل به إلى حق، أو ليدفع به عن نفسه ظلماً فلا بأس به، وكذا الآخذ إذا أخذ ليسعى في إصابة صاحب الحق فلا بأس به، لكن هذا ينبغي أن يكون في غير القضاة والولاة؛ لأن السعي في إصابة الحق إلى مستحقه، ودفع الظالم عن المظلوم واجب عليهم، فلايجوز لهم الأخذ عليه". (کتاب الأمارة والقضاء، باب رزق الولاة وهدایاهم، الفصل الثاني،ج:۷ ؍۲۹۵ ،ط:دارالکتب العلمیة) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144105201044

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں