بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

8 رمضان 1445ھ 19 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

اسلامی بینک اور بینک سے قرض لینے کا حکم


سوال

کیا اسلامی اور شرعی نقطۂ  نگاہ سے اسلامی بینکنگ سے کام کیا جا سکتا ہے؟ بینک سے قرض لے کر کاروبار کیا جا سکتا ہے؟

جواب

  مروجہ غیر سودی بینکوں  کا اگرچہ یہ دعویٰ ہے کہ وہ علماءِ کرام کی نگرانی میں  شرعی اصولوں کے مطابق کام کرتے ہیں،  لیکن ملک کے اکثر جید اور مقتدر علماءِ کرام  کی رائے یہ ہے کہ  ان  بینکوں کا طریقہ کار شرعی اصولوں کے مطابق نہیں ہے،  اور مروجہ غیر سودی بینک اور  روایتی بینک کےبہت سے  معاملات  تقریباً ایک جیسے ہیں، لہذا روایتی بینکوں کی طرح ان میں بھی سرمایہ کاری کرنا جائز نہیں ہے، اور اس سے حاصل ہونے والا نفع  حلال نہیں ہے۔

ہمارے علم کے مطابق تاحال  پاکستان میں کوئی بھی بینک صحیح شرعی اصولوں کے مطابق نہیں ہے۔(تفصیل کے لیے  ” مروجہ اسلامی بینکاری“  نامی کتاب کا مطالعہ کرلینا چاہیے۔)

نیزکسی  بھی بینک سے  قرضہ لینے کی صورت میں سود کا معاہدہ کرنا پڑتا ہے گو وہ کسی دوسرے نام سے کیا جاتا ہو، اس لیے کسی بینک سے قرضہ لینااور اس سے کاروبار کرنا جائز نہیں ہے، لہذا اگر قرض لینا ہی ہو تو بینک کے علاوہ کسی اور  سے غیر سودی قرضہ حاصل کر لیں۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144107200501

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں