بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

ادھار خرید و فروخت میں شرح منافع


سوال

ادھار خرید و فروخت میں کتنے فیصد منافع وصول کیا جا سکتا ہے؟

جواب

واضح رہے کہ شریعتِ مطہرہ نے خرید و فروخت کی صحت کا مدار عاقدین کی باہمی رضامندی پر رکھا ہے اور منافع کے حوالہ سے کسی قسم کی پابندی یا حد مقرر نہیں کی، بلکہ اس معاملہ کو عرف پر چھوڑ دیا ہے، تاہم تاجر کو اس بات کا پابند بھی کیا ہے کہ وہ کسی کی مجبوری کا غلط فائدہ نہ اٹھائیں اور یہ اسلامی معاشیات کی اہم خوبی ہے۔

مسند احمد میں ہے:

"عَنْ اَبِي هُرَيْرَةَ اَنَّ رَجُلًا جَاءَ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اﷲِ سَعِّرْ! فَقَالَ: بَلْ أَدْعُو، ثُمَّ جَاءَ هُ رَجُلٌ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اﷲِ سَعِّرْ! فَقَالَ: بَلْ اﷲُ يَخْفِضُ وَيَرْفَعُ، وَإِنِّي لَاَرْجُو أَنْ أَلْقَی اﷲَ وَلَيْسَ لِأَحَدٍ عِنْدِي مَظْلَمَةٌ". ( ٢/ ٣٣٧، رقم الحديث: ٣٤٥٠، ط: موسسة قرطبة مصر)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص آیا اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (اشیاء) کے نرخ مقرر فرما دیجیے۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میں دعا کروں گا، پھر ایک شخص نے آکر عرض کی: یا رسول اللہ (صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم)! بھاؤ مقرر فرما دیجیے۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ ہی بھاؤ گھٹاتا اور بڑھاتا ہے اور میں یہ آرزو رکھتا ہوں کہ اس حال میں اللہ تعالیٰ سے ملاقات کروں کہ میں نے کسی پر بھی زیادتی نہ کی ہو۔ سنن ابی داؤد میں ہے:

"عَنْ أَنَسٍ قَالَ النَّاسُ: يَا رَسُولَ اﷲِ غَلَا السِّعْرُ فَسَعِّرْ لَنَا، فَقَالَ رَسُولُ اﷲِ: إِنَّ اﷲَ هُوَ الْمُسَعِّرُ الْقَابِضُ الْبَاسِطُ الرَّازِقُ، وَإِنِّي لَأَرْجُو أَنْ أَلْقَی اﷲَ وَلَيْسَ أَحَدٌ مِنْکُمْ يُطَالِبُنِي بِمَظْلَمَةٍ فِي دَمٍ وَلَا مَالٍ". (٣ / ٢٧٢، رقم الحديث: ٣٤٥١)

حضرت انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ لوگوں نے شکایت کی کہ اے اللہ کے رسول (صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھاؤ بہت چڑھ گئے ہیں، لہٰذا ہمارے لیے نرخ مقرر فرما دیجیے۔ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ نرخ مقرر کرنے والا تو اللہ تعالیٰ ہے، وہی رزق کی تنگی اور کشادگی کرتا ہے، اور میں یہ تمنا رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملوں کہ تم میں سے کسی کا مجھ سے مطالبہ نہ ہو، جانی یا مالی زیادتی کا۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں ادھار خرید و فروخت کی صورت میں باہمی رضامندی سے جتنا نفع طے کرلیا جائے وہ لینا جائز ہوگا، البتہ بازار کے متعارف منافع سے زائد منافع رکھنا مناسب نہیں. نیز ابتدا میں جو قیمت طے کرلی جائے اس سے زائد رقم (چاہے قسط میں تاخیر کے نام پر بطور جرمانہ ہو یا کسی اور نام سے) وصول کرنا شرعاً جائز نہ ہوگا، نیز جرمانہ کی شرط کے ساتھ ادھار خرید و فروخت جائز نہیں۔

واضح رہے کہ اگر بنیادی غذائی اشیاء کا بحران ہو تو ان کی قیمت بڑھا چڑھا کر لوگوں کی مجبوری سے فائدہ اٹھانے سے  کراہت مزید بڑھ جائے گی۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144001200618

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں