بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

آبائی گاؤں سے منتقل ہونے کے بعد وہاں جانے کی صورت میں نماز کے قصر اور اتمام کا حکم


سوال

میرے ایک جاننے والے ہیں ان کا ایک گھر پنجاب میں ہے اور ایک گھر کراچی میں ہے جب کہ ان کی رہائش کراچی والے گھر میں ہے اور گھر والے بھی یہیں کراچی والے گھر میں ہیں، اور وہ  پنجاب میں کبھی کبھار جاتے ہیں کسی کام وغیرہ کے سلسلے میں، تو کیا وہ پنجاب میں نماز مکمل پڑھیں گے یا قصر کریں گے ؟

جواب

 اگر کوئی شخص اپنے وطنِ اصلی سے بیوی، بچے اور سامان وغیرہ لے کر دوسری جگہ منتقل ہوجائے اور وہیں مستقل  طور پر  اہل وعیال کے ساتھ عمر گزارنے کی نیت کرلے، اور پہلی جگہ پر دوبارہ منتقل ہونے کا ارادہ نہ ہو   اس کا پہلا وطن اصلی ختم ہوجاتا ہے،  اور دوسری جگہ اس کا وطن اصلی بن جاتا ہے، اور  اگر پہلی جگہ  پر بھی موسم کے لحاظ سے آکر رہنے کا ارادہ ہو یا  وطنِ اصلی سے  اہل وعیال کو تو دوسری جگہ  منتقل کرلیا، لیکن پہلے وطن سے بھی تعلق ہے اس کو ختم کرنے کا ارادہ نہیں ہے، مثلاًاس کی زمینیں اور مکانات وغیرہ وہاں موجود ہیں تو دونوں  جگہیں اس کے وطن اصلی شمار ہوں گے ، جب وہاں جائے گا تو مقیم ہوگا اور جب یہاں آئے گا تب بھی مقیم ہوگا، اور درمیان کے راستے میں مسافر ہوگا۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر آپ کے دوست نے پنجاب سے مستقل طور پر تعلق ختم کرکے اس کی وطنیت کو ختم نہیں کیا، بلکہ  کراچی میں رہنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی نیت ہے کہ پنجاب کا آبائی علاقہ بھی ہمارا وطن ہے، تو  وہ وہاں مکمل نماز پڑھیں گے، اگرچہ وہاں پندرہ دن سے کم کے لیے ہی کیوں نہ گئے ہوں، لیکن اگر  انہوں نے یہ نیت کی ہے کہ اب پنجاب  ہمارا وطن اصلی نہیں رہا  اور اہل وعیال سمیت کراچی ہجرت کرلی ہےاور اب وہاں رہنے کا ارادہ نہیں ہے،تو اب یہ  پندرہ دن سے کم کے لیے پنجاب جائیں گے تومسافر ہوں گے اور قصر نمازپڑھیں گے۔

البحر الرائق شرح كنز الدقائق (2 / 147):

"وفي المحيط: ولو كان له أهل بالكوفة وأهل بالبصرة فمات أهله بالبصرة وبقي له دور وعقار بالبصرة، قيل: البصرة لا تبقى وطناً له؛ لأنها إنما كانت وطناً بالأهل لا بالعقار، ألا ترى أنه لو تأهل ببلدة لم يكن له فيها عقار صارت وطناً له، وقيل: تبقى وطناً له؛ لأنها كانت وطناً له بالأهل والدار جميعاً، فبزوال أحدهما لايرتفع الوطن، كوطن الإقامة تبقى ببقاء الثقل وإن أقام بموضع آخر. ا هـ

 وفي المجتبى: نقل القولين فيما إذا نقل أهله ومتاعه وبقي له دور وعقار، ثم قال: وهذا جواب واقعة ابتلينا بها وكثير من المسلمين المتوطنين في البلاد ولهم دور وعقار في القرى البعيدة منها يصيفون بها بأهلهم ومتاعهم، فلا بد من حفظها أنهما وطنان له لا يبطل أحدهما بالآخر". فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144003200272

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں