بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

یوٹیوب چینل بناکر پیسہ کمانا


سوال

آج کل بے روزگاری کا دور عام ہوتا جا رہا ہے جبکہ آن لائن کاروبار اور ضرورت زندگی کی اشیاء و ضرورت پوری کرنے کیلئے مختلف آن لائن ذرائع موجود ہیں،میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ اگر میں کوئی فلموں ڈراموں مزاحیہ وغیرہ چینل بنانے کی بجائے دینی معلوماتی چینل بنا لوں اور چینل مونیٹائز کرالوں جس سے مجھے پیسے بھی ملیں گے ،  کیا اس طرح پیسہ کمانے کی شرعا گنجائش ہے ؟

جواب

واضح رہے کہ  یوٹیوب چینل بنا کر اس پر ویڈیوز اَپ لوڈ  کر کے  کمائی کی صورتیں  مندرجہ ذیل ہوتی  ہیں: 

1) ایڈورٹائزمنٹ کے ذریعہ کمائی: یوٹیوب پر جب کوئی چینل کھولتا ہے اور اس پر مواد ڈالتا ہے تو چینل کھولنے والا گوگل کو اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ گوگل مختلف قسم کے  ایڈز(اشتہارات) اس کے چینل  پر چلائے، گوگل ان ایڈز سے جو کماتا ہے  45  فیصد خود رکھتا ہے اور  55  فیصد یوٹیوب چینل والے کو دیتا ہے۔گوگل  لوگوں سے ہر کلک کے حساب سے رقم وصول کرتا ہے۔

2) یوٹیوب کے جو  پریمیم کسٹمرز ہیں یوٹیوب ان سے سبسکرپشن فیس لیتا ہے اور جب وہ لوگ کسی چینل کو دیکھتے ہیں تو  یوٹیوب اس چینل والے کو اس سبسکرپشن فیس میں سے کچھ دیتا ہے۔

اب ہر ایک کا حکم ترتیب وار ذکر ہے:

1) ایڈ کے ذریعہ کمائی  کی صورت شرعًا اجارہ کا معاملہ ہے جو گوگل اور یوٹیوب چینل کے مالک کے درمیان ہوتا ہے۔ گوگل  چینل کے مالک کو اس کے چینل کے استعمال پر  (ایڈ نشر کرنے کی صورت میں)  اجرت دیتا ہے۔یہ اجرت مندرجہ ذیل خرابیوں کی وجہ سے حلال نہیں ہے:

الف) گوگل کو اختیار ہوتا ہے کہ وہ کسی قسم كا بھی اشتہارچلائے، ان میں اکثر اشتہارات ذی روح (جاندار)کی تصاویر پر مبنی ہوتی ہیں اور یوٹیوب چینل بنانے والے کو انہی اشتہارات  کی اجرت ملتی ہے، لہذا یہ اجرت کا معاہدہ  تعاون على الاثم  ہونے کی وجہ سے ناجائز  ہوگا اور کمائی بھی حلال  نہیں ہوگی۔

ب)  اجرت مجہول ہوتی ہے؛ کیوں کہ گوگل ایک متعین اجرت نہیں طے کرتا،  بلکہ اپنی کمائی کا  55 فیصد اجرت طے کرتا ہے اور گوگل کی کل اجرت مجہول ہوتی ہے تو  اس کا  55فیصد بھی مجہول ہوتا ہے۔ چینل کے استعمال کی اجرت کا تعلق وقت کے ساتھ ہونا چاہیے یعنی جتنی دیر اس پر ایڈ چلے اس حساب سے اجرت ملے؛ لہذا اگر چینل پر چلنے والے ایڈز اگر سب کے سب  شرعی دائرہ کے اندر بھی ہوں تب بھی یہ معاملہ شرعًا اجارہ فاسد ہوگا اور اجرت حلال نہیں ہوگی۔

2) یوٹیوب پریمیم میمبر  سے بعض سہولیات (جو ویڈیوز دیکھنے اور ڈاونلوڈ کرنے سے متعلق ہوتی ہیں)کے بدلہ سبسکرپشن فیس  (اجرت)  لیتا ہے  اور  جب یہ  پریمیم  میمبر  کسی چینل کو دیکھتا ہے تو یوٹیوب اس پر چینل والے کو رقم دیتا ہے۔یہ رقم جو یوٹیوب یوٹیوب چینل والے کو دیتا ہےچینل استعمال کرنے کی اجرت ہے ۔یہ اجرت بھی مندرجہ ذیل وجوہ سے شرعًا جائز نہیں ہے:

الف)  چینل پر موجود ویڈیوز اگر  جاندار  کی تصاویر پر مشتمل ہیں تو یہ  "اجرت علی المعاصی"  ہونے کی وجہ سے حرام ہوگی۔ 

ب)اگر ویڈیو شرعی دائرہ کے مطابق ہو تب بھی اجرت مجہول ہونے کی وجہ سے ناجائز اور حرام ہوگی؛ کیوں کہ چینل کے استعمال کی اجرت وقت کے ساتھ متعین ہونی چاہیے کہ اتنے وقت کی اتنی اجرت ہے یا پھر مکمل مہینہ یا سال کی اتنی اجرت ہے جب کہ مذکورہ صورت میں ہماری معلومات کے مطابق اس طرح چینل والے کی اجرت متعین نہیں ہوتی۔

لہذا مذکورہ بالاخرابیوں کے پائے جانے کی وجہ سے یوٹیوب چینل بناکراس کے ذریعہ پیسے کمانا جائز نہیں ہے ۔

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"ومنها أن يكون مقدور الاستيفاء - حقيقة أو شرعا فلا يجوز استئجار الآبق ولا الاستئجار على المعاصي؛ لأنه استئجار على منفعة غير مقدورة الاستيفاء شرعا.... ومنها أن تكون المنفعة مقصودة معتادا استيفاؤها بعقد الإجارة ولا يجري بها التعامل بين الناس فلا يجوز استئجار الأشجار لتجفيف الثياب عليها. .... ومنها أن تكون الأجرة معلومة."

(كتاب الاجارة، ج: 4، ص :411، ط: رشيديه )

أحكام القرآن للجصاص  میں ہے:

"وقوله تعالى: وتعاونوا على البر والتقوى يقتضي ظاهره إيجاب التعاون على كل ما كان تعالى لأن البر هو طاعات الله وقوله تعالى ولا تعاونوا على الإثم والعدوان نهي عن معاونة غيرنا على معاصي الله تعالى."

(سورہ مائدہ، ج :3 ص :296، ط:دار احیاء التراث)

رد المحتار  میں ہے:

"وظاهر كلام النووي في شرح مسلم : الإجماع علٰی تحریم تصویر الحیوان، وقال: وسواء لما یمتهن أو لغیره فصنعه حرام لکل حال، لأن فیه مضاهاة لخلق اللّٰہ".

(فرع لا بأس بتكليم المصلي وإجابته برأسه، 674/1، ط: سعید)

وفیہ ایضا:

"قال ابن مسعود: صوت اللهو و الغناء ينبت النفاق في القلب كما ينبت الماء النبات. قلت: و في البزازية: إستماع صوت الملاهي كضرب قصب و نحوه حرام ؛لقوله عليه الصلاة و السلام:  استماع الملاهي معصية، و الجلوس عليها فسق، و التلذذ بها كفر؛ أي بالنعمة".

(كتاب الحظر والإباحة، 349،348/6، ط: سعيد)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144408102034

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں