بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 ذو الحجة 1446ھ 13 جون 2025 ء

دارالافتاء

 

ولادت کے آٹھ دن بعد خون بند ہوجائے تو کیا عورت پاک شمار ہوگی؟


سوال

اگر بچے کی پیدائش کے آٹھ دن بعد خون آنا بند ہوجائے تو کیا عورت پاک ہوسکتی ہے؟

جواب

واضح رہے کہ بچے کی ولادت کے بعد آنے والے خون کو نفاس کہتے ہیں، اس کی کم سے کم کوئی مدت متعین نہیں،اس کی زیادہ سے زیادہ مدت چالیس دن ہے، لہٰذا صورتِ مسئولہ میں اگر عورت کے پہلے بچے کی ولادت ہے اور خون چالیس دن سے پہلے یعنی آٹھ دن کے بعد بند ہوگیا تو یہ عورت اسی وقت سے پاک شمار ہوگی اور اس کا حکم یہ ہے کہ غسل  کرنے یا ایک نماز کا وقت گزرنے سےپہلے اس عورت کا اپنے شوہر سے ازدواجی تعلق قائم کرنا جائز نہیں ہے، البتہ غسل کرنے کے بعد یا ایک نماز کا وقت گزرجانے کے بعد اس عورت کا اپنے شوہر کے ساتھ ازدواجی تعلق قائم کرنا جائز ہوگا، لیکن مستحب یہ ہے کہ غسل کیے بغیر شوہر سے ازدواجی تعلق قائم نہ کرے۔ اسی طرح یہ عورت   روزہ بھی رکھے گی اور نماز کو بھی آخری وقت تک (استحباباً) مؤخر کر کے پڑھے گی، لیکن اتنی تاخیر بھی نہ کرے کہ مکروہ وقت داخل ہوجائے۔

اور اگر یہ دوسرے بچے کی ولادت ہے، یعنی عورت معتادہ ہے تو اب ا گر اس کی عادت آٹھ  دن ہی تھی اور اس دفعہ بھی آٹھ دن میں خون بند ہوا  یا پھر اس کی عادت آٹھ دن سے کم تھی اور اس دفعہ آٹھ دن خون آکر بند ہوگیا تو ان دونوں صورتوں کاحکم وہی ہےجو اوپر ذکر ہوا۔

لیکن اگر  اس کی عادت آٹھ دن سے زیادہ کی تھی اور  آٹھ دن میں خون بند ہوگیا یا پھر ابتدا میں آٹھ دن میں خون بند ہوگیا  پھر چالیس دن کے اندر اندر دوبارہ خون آگیا تو یہ تمام دن نفاس کے شمارہ ہوں گےا ور ان دونوں صورتوں کا  حکم یہ ہے کہ  سابقہ عادت تک  اس عورت کا اپنے شوہر سے ازدواجی تعلق قائم کرنا جائز نہیں ہے، البتہ یہ عورت احتیاطاً  روزہ بھی رکھے گی اور نماز کو بھی نماز کے آخری وقت تک (وجوباً) مؤخر کر کے پڑھے گی، لیکن اتنی تاخیر بھی نہ کرے کہ مکروہ وقت داخل ہوجائے۔البتہ  نفاس کے ایام میں ادا  کی گئی  نمازوں کی  قضاء لازم نہیں ہے،البتہ روزوں کی قضا لازم ہوگی۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"أقل النفاس ما يوجد ولو ساعة وعليه الفتوى وأكثره أربعون. كذا في السراجية. وإن زاد الدم على الأربعين فالأربعون في المبتدأة والمعروفة في المعتادة نفاس هكذا في المحيط. الطهر المتخلل في الأربعين بين الدمين نفاس عند أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - وإن كان خمسة عشر يوما فصاعدا وعليه الفتوى. ثم العادة في ‌النفاس تنتقل برؤية المخالف مرة عند أبي يوسف. هكذا في الخلاصة".

(كتاب الطهارة،‌‌ الباب السادس في الدماء المختصة بالنساء، الفصل الثاني في النفاس، ج:1، ص:37، ط: دار الفكر)

فتاوی شامی میں ہے:

"(ويحل وطؤها إذا انقطع حيضها لأكثره) بلا غسل وجوبا بل ندبا.(وإن) انقطع لدون أقله تتوضأ وتصلي في آخر الوقت، وإن (لأقله) فإن لدون عادتها لم يحل، وتغتسل وتصلي وتصوم احتياطا؛ وإن لعادتها، فإن كتابية حل في الحال وإلا (لا) يحل (حتى تغتسل) أو تتيمم بشرطه»(أو يمضي عليها زمن يسع الغسل) ولبس الثياب (والتحريمة) يعني من آخر وقت الصلاة لتعليلهم بوجوبها في ذمتها.

(قوله إذا انقطع حيضها لأكثره) مثله النفاس، وحل الوطء بعد الأكثر ليس بمتوقف على انقطاع الدم صرح به في العناية والنهاية وغيرهما، وإنما ذكره ليبني عليه ما بعده قال ط: ويؤخذ منه جواز الوطء حال نزول دم الاستحاضة اهـ وقدمنا عن البحر أنه يجوز الاستمتاع بما بين السرة والركبة بحائل بغير الوطء ولو تلطخ دما. اهـ وهذا في الحائض، فيدل على جواز وطء المستحاضة وإن تلطخ دما وسيأتي ما يؤيده فافهم (قوله وجوبا) منصوب بعامل محذوف أي بلا غسل يجب وجوبا، ومثله قوله بل ندبا (قوله بل ندبا) ؛ لأن قراءة - {حتى يطهرن} [البقرة: 222]- بالتشديد تقتضي حرمة الوطء إلى غاية الاغتسال فحملناها على ما إذا كان أيامها أقل من عشرة دفعا للتعارض بين القراءتين، فظاهره يورث شبهة فلهذا لا يستحب نوح عن الكافي

(قوله لدون أقله) أي أقل الحيض وهو ثلاثة أيام (قوله في آخر الوقت) أي وجوبا بركوي، والمراد آخر الوقت المستحب دون المكروه كما هو ظاهر سياق كلام الدرر وصدر الشريعة. قال ط: وأهمل الشارح حكم الجماع، ويظهر عدم حله بدليل مسألة الانقطاع على الأقل وهو دون العادة.

قلت: قد يفرق بين تحقق الحيض وعدمه، وانظر ما نذكره قبيل قوله والنفاس لأم التوأمين (قوله وإن ولأقله) اللام بمعنى بعد ط (قوله لم يحل) أي الوطء وإن اغتسلت؛ لأن العود في العادة غالب بحر (قوله وتغتسل وتصلي) أي في آخر الوقت المستحب، وتأخيره إليه واجب هنا أما في صورة الانقطاع لتمام العادة فإنه مستحب كما في النهاية والبدائع وغيرهما (قوله احتياطا) علة للأفعال الثلاثة (قوله وإن لعادتها) وكذا لو كانت مبتدأة درر (قوله حل في الحال) ؛ لأنه لا اغتسال عليها لعدم الخطاب، فإن أسلمت بعد الانقطاع لا تتغير الأحكام، وتمامه في البحر (قوله حتى تغتسل) قد علمت أنه يستحب لها تأخيره إلى آخر الوقت المستحب دون المكروه.قال في المسبوط: نص عليه محمد في الأصل. قال: إذا انقطع في وقت العشاء تؤخر إلى وقت يمكنها أن تغتسل فيه وتصلي قبل انتصاف الليل، وما بعد نصف الليل مكروه بحر".

(كتاب الطهارة، باب الحيض، ج:1، ص:294، ط: سعيد)

وفیہ أیضاً:

"أصل الإمام أن الدم إذا كان في الأربعين فالطهر المتخلل لا يفصل طال أو قصر، حتى لو رأت ساعة دما وأربعين إلا ساعتين طهرا ثم ساعة دما كان الأربعون كلها نفاسا وعليه الفتوى".

(كتاب الطهارة، باب الحيض، ج:1، ص:299، ط: سعيد)

تبیین الحقائق میں ہے:

"ولو ‌انقطع الحيض دون عادتها فوق الثلاث لا يقربها وإن اغتسلت حتى تمضي عادتها؛ لأن العود في العادة غالب وتصلي وتصوم للاحتياط".

(كتاب الطهارة، باب الحيض، ج:1، ص:60، ط: دار الكتاب الاسلامي)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144611101923

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں