اگر کسی شخص نے دوسری شادی کی اور اس بیوی کے ساتھ دو بچے بھی آئے، تو کیا ان بچوں سے ابا کہلوا سکتے ہیں یا نہیں؟
جی ہاں! سوتیلا والد اگر چہ حقیقی والد نہیں، لیکن اُس کو ابو کہہ کر پکارنا جائز ہے، مگر شریعت میں بچوں کا نسب اور ان کی شناخت ان کے حقیقی والد سے ہوتی ہے ، بچے کی نسبت ان کے حقیقی والد ہی کی طرف کرنا ضروری ہے، اورتمام سرکاری غیر سرکاری کاغذات میں بچے کی ولدیت میں اصل والد کا نام ہی لکھا جانا شرعا لازم ہے، تا کہ ہمیشہ ان کی اصل شناخت باقی رہے اور نسب اور تقسیم وراثت کے مسائل میں بھی اشتباہ سے بچا جا سکے۔
قرآن مجید میں ہے :
"﴿ اُدْعُوهُمْ لِاٰبَآئِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِنْدَ اللَّهِ ۚ ﴾ ."
ترجمہ:"تم ان کو ان کے باپوں کی طرف منسوب کیا کرو یہ سب اللہ کے نزدیک راستی کی بات ہے۔"(بیان القرآن)
حدیث میں ہے :
"عن سعد رضي الله عنه، قال سمعت النبي صلى الله عليه وسلم، يقول: «من ادعى إلى غير أبيه، وهو يعلم أنه غير أبيه، فالجنة عليه حرام»."
(صحیح البخاری ،باب من ادعی الی غیر ابیہ،ج:8،ص:156،ط:دارطوق النجاۃ)
فتاوی شامی میں ہے :
"قلت: وظاهره أنها لو جرت المقدمات على معينة وتميزت عند الشهود أيضا يصح العقد وهي واقعة الفتوى؛ لأن المقصود نفي الجهالة، وذلك حاصل بتعينها عند العاقدين والشهود، وإن لم يصرح باسمها."
(کتاب النکاح ،ج:3،ص:15،ط:سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144503101133
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن