ایک عالم سے اس کاوالد اس وجہ سے ناراض ہے کہ وہ درس میں لگ کر تبلیغ نہیں کرتا، کیا والد کی اس قسم کی ناراضگی کی وجہ سے بیٹا عند اللہ مجرم ہے؟
واضح رہے کہ مروجہ تبلیغ دین کا شعبہ ہے، مروجہ دعوت و تبلیغ شرعی اعتبار سے امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے مؤثر طریقوں میں سے ایک مؤثر طریقہ ہے ، تبلیغ میں وقت لگانا اصلاح اور دین کی دعوت کے احساس کو اجاگر کرنے کے لیے بہت مفید ہے، اس دور میں بے علمی اور بے عملی عام ہے، عوام تک دین پہنچانے اور ان کے دین کو پختہ کرنے کے لیے موجودہ تبلیغی کام بے حد مفید ہے اور اس کا مشاہدہ ہے،اسی طرح دین کے دیگر شعبے تعلیم و تدریس، تصنیف و تالیف ،درس قران،بیانات وغیرہ بھی سب دین کے اہم شعبے ہیں، دین پھیلانے کا ذریعہ ہیں ،کسی ایک شعبہ کو ہی سارا دین سمجھنااور دوسرے شعبوں کی نفی کرنا درست نہیں ہے۔
لہذا صورتِ مسئولہ میں مذکورہ شخص اگر درس و تدریس کے شعبہ سے منسلک ہے،تو یہ دین کا ایک اہم شعبہ ہے،علوم نبوت پھیلانے کا ذریعہ ہے، لہذاوالد کو چاہیے اس کو درس و تدریس کےشعبہ میں دین کا کام کرنے دے، اس سے ہٹا کر تبلیغ کے شعبہ میں منسلک کرنے کی کو شش نہ کرے،نیز والد اس وجہ سے ناراض نہ ہو کہ وہ درس میں لگ کر تبلیغ نہیں کرتا۔
قران مجید میں ہے:
وَقَضَى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُمَا أَوْ كِلَاهُمَا فَلَا تَقُلْ لَهُمَا أُفٍّ وَلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُلْ لَهُمَا قَوْلًا كَرِيمًا ً وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُلْ رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَارَبَّيَانِي صَغِيرًا [الإسراء: 23، 24]
ترجمہ: اور تیرے رب نے حکم دیا ہے کہ بجز اس کے کسی کی عبادت مت کرو، اور تم (اپنے) ماں باپ کے ساتھ حسنِ سلوک کیا کرو، اگر تیرے پاس ان میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جاویں، سو ان کو کبھی (ہاں سے) ہوں بھی مت کرنا اور نہ ان کو جھڑکنا ، اور ان سے خوب اَدب سے بات کرنا، اور ان کے سامنے شفقت سے، انکساری کے ساتھ جھکے رہنا اور یوں دعا کرتے رہنا کہ اے پروردگار ان دونوں پر رحمت فرمائیں جیساکہ انہوں نےمجھ کو بچپن میں پالا پرورش کیا ہے۔
(سورۃ الاسراء، رقم الآیۃ:23،24، ترجمہ:بیان القرآن)
مشکاة المصابیح میں ہے:
"عن ابن عباس قال: قال رسول الله ﷺ: من أصبح مطیعاً لله في والدیه أصبح له بابان مفتوحان من الجنة وإن کان واحداً فواحداً، ومن أصبح عاصیاً لله في والدیه أصبح له بابان مفتوحان من النار، إن کان واحداً فواحداً، قال رجل: وإن ظلماه؟ قال: وإن ظلماه وإن ظلماه وإن ظلماه. رواه البیهقي في شعب الإیمان".
( کتاب الآداب، باب البر والصلة، رقم الحديث:4943، ج:3، ص:1382، ط:المكتب الاسلامى)
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص اس حال میں صبح کرے کہ وہ اپنے والدین کا مطیع وفرماں بردار ہو تو اس کے لیے جنت کے دو دروازے کھول دیے جاتے ہیں، اور اگر والدین میں سے کوئی ایک (حیات) ہو (اور وہ اس کا مطیع ہو) تو ایک دروازہ کھول دیا جاتاہے۔ اور جو شخص اس حال میں صبح کرے کہ وہ اپنے والدین کا نافرمان ہو تو اس کے لیے صبح کے وقت جہنم کے دو دروازے کھول دیے جاتے ہیں، اور اگر والدین میں سے کسی ایک کا نافرمان ہو تو ایک دروازہ جہنم کا کھول دیا جاتاہے۔ ایک شخص نے سوال کیا: اگرچہ والدین ظلم کریں؟ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اگرچہ وہ دونوں اس پر ظلم کریں، اگرچہ وہ اس پر ظلم کریں، اگرچہ وہ اس پر ظلم کریں۔
تفسیر مظہری میں ہے:
"(وَوَصَّيْنَا الْإِنْسانَ بِوالِدَيْهِ) أى أمرناه ان يبرّهما ويشكرهما۔۔۔۔۔۔(حَمَلَتْهُ أُمُّهُ)۔۔(وَهْناً )كائنا (عَلى وَهْنٍ)۔۔۔عن أبى هريرة قال قال رجل يا رسول الله من أحق بحسن صحبتي قال أمك ثم أمك ثم أمك ثم أباك ثم أدناك فأدناك. متفق عليه وقال عليه السّلام : إن الله حرم عليكم عقوق الأمهات. متفق عليه۔۔۔۔۔(أَنِ اشْكُرْ لِي) تفسير لوصينا أو بدل من والديه بدل اشتمال (وَلِوالِدَيْكَ) قال سفيان بن عيينة فى هذه الآية :من صلّى الصلوات الخمس فقد شكر الله ومن دعا لوالديه فى إدبار الصلوات الخمس فقد شكر لوالديه (إِلَيَّ الْمَصِيرُ)،المرجع فيه وعد ووعيد يعنى أجازيك على شكرك وكفرك(وَإِنْ جاهَداكَ) عطف على قوله أن اشكر (عَلى أَنْ تُشْرِكَ بِي ما لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ )باستحقاق الإشراك يعنى فكيف وأنت تعلم بطلان الإشراك بالأدلة القاطعة (فَلا تُطِعْهُما) فى ذلك فإن حق الله غالب على حق كل ذى حق، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لاطاعة للمخلوق فى معصية الخالق- رواه احمد والحاكم وصححه عن عمران والحكيم ابن عمرو الغفاري وفى الصحيحين وسنن ابى داؤد والنسائي عن علىّ نحوه (وَصاحِبْهُما فِي الدُّنْيا) صحابا (مَعْرُوفاً) يرتضيه الشرع والعقل.(مسئلة) يجب بهذه الآية الإنفاق على الأبوين الفقيرين وصلتهما وإن كانا كافرين ،عن أسماء بنت ابى بكر قالت قدمت علىّ أمي وهي مشركة فى عقد قريش فقلت يا رسول الله ان أمي قدمت علىّ وهى راغبة أفأصلها قال نعم صليها. متفق عليه-۔۔۔(مسئلة) لا يجوز إطاعة الوالدين إذا امرا بترك فريضة او إتيان مكروه تحريما ؛لان ترك الامتثال لامر الله والامتثال لامر غيره إشراك معنى ولما روينا من قوله عليه السّلام لاطاعة للمخلوق فى معصية الخالق- ويجب إطاعتهما إذا أمرا بشئ مباح لا يمنعه العقل والشرع۔۔إلخ."
(سورة لقمان، آیة: 14،15، 255،256/7، ط: رشيدية)
"أحكام القرآن للجصاص" میں ہے:
"قال الله تعالى: ولتكن منكم أمة يدعون إلى الخير ويأمرون بالمعروف وينهون عن المنكر قال أبوبكر قد حوت هذه الآية معنيين أحدهما وجوب الأمر بالمعروف والنهي عن المنكر والآخر أنه فرض على الكفاية ليس بفرض على كل أحد في نفسه إذا قام به غيره لقوله تعالى ولتكن منكم أمة وحقيقته تقتضي البعض دون البعض فدل على أنه فرض على الكفاية إذا قام به بعضهم سقط عن الباقين ومن الناس من يقول هو فرض على كل أحد في نفسه ويجعل مخرج الكلام مخرج الخصوص في قوله ولتكن منكم أمة مجازا كقوله تعالى ليغفر لكم من ذنوبكم ومعناه ذنوبكم والذي يدل على صحة هذا القول أنه إذا قام به بعضهم سقط عن الباقين كالجهاد وغسل الموتى وتكفينهم والصلاة عليهم ودفنهم ولو لا أنه فرض على الكفاية لما سقط عن الآخرين بقيام بعضهم به."
(آل عمران، باب فرض الأمر بالمعروف والنهي عن المنكر،ج:2، ص:38، ط:دار الكتب العلمية)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144602101064
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن