ایک عورت کو چھتیس مرلے زمین بطور مہر ملی تھی، عورت نے اپنی ساری اولاد سے کہا کہ جب میں مر جاؤں گی تو میرے مرنے کے بعد یہ ساری جائیداد آپس میں برابر سرابر تقسیم کر دیں جب کہ عورت کے ورثاءمیں صرف چھ بچے یعنی تین لڑکے اور تین لڑکیاں ہیں۔ ان میں سے ہر ایک کو کتنا حصہ ملے گا؟
نوٹ: ان کے علاوہ اور کوئی ورثاء نہیں ہیں نہ والدین نہ بہن بھائی اور نہ کوئی رشتہ دار فقط یہ چھ بچے ہیں۔
صورت مسئولہ میں اگر مذکورہ عورت نے وصیت کی ہے کہ اس کی وفات کے بعد زمین تمام اولاد کے درمیان برابر تقسیم کی جائے تو اگر تمام ورثاء عاقل اور بالغ ہوں اور وہ سب اپنی خوشی سے اس وصیت پر عمل کرنے کی اجازت دے دیں تو زمین وصیت کے مطابق تمام بیٹے اور بیٹیوں میں برابر سرابر تقسیم کی جائے گی، اگر ورثاء میں کچھ نابالغ ہو یا بالغ تو ہوں لیکن وصیت پر عمل کرنے پر راضی نہ ہوں تو پھر زمین شریعت کےاصولوں کے مطابق ورثاء کے درمیان تقسیم کی جائے گی یعنی ہر بیٹے کو آٹھ مرلے ملیں گے اور ہر بیٹی کو چار مرلے ملیں گی۔
قرآن مجید میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
" يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ."﴿النساء: ١١﴾"
"الله تعالیٰ تم کو حکم دیتا ہے تمہاری اولاد کے باب میں لڑکے کا حصہ دولڑکیوں کے حصہ کے برابر۔" (بیان القرآن)
(القرآن الكريم, سورة النساء, آية: 11)
فتاوی شامی میں ہے:
"لا تسبيبا كما مر (إلا بإجازة ورثته) لقوله عليه الصلاة والسلام «لا وصية لوارث إلا أن يجيزها الورثة» يعني عند وجود وارث آخر كما يفيده آخر الحديث."
(كتاب الوصايا، ج: 6، ص: 656، ط: دار الفكر - بيروت)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144611101447
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن