کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ کیا عشر مستاجر ادا کرے گا یا مالک؟
واضح رہے کہ مذکورہ معاملہ زمین کو سالانہ کرایہ پر دینے کا ہے، اس صورت میں یعنی زمین کرایہ پر دینے کی صورت میں بھی عشر لازم ہے، البتہ اس کا عشر زمین کے مالک پر ہوگا یا کرایہ دار پر! اس میں یہ تفصیل ہے کہ زمین کا مالک اگر کرایہ بہت زیادہ لیتا ہے اور کرایہ دار کو کم بچت ہوتی ہے تو ایسی صورت میں عشر زمین کے مالک کے ذمہ ہوگا، اور اگر زمین کا مالک کرایہ کم لیتا ہے اور اس کے مقابلہ میں کرایہ دار کو بچت زیادہ ہوتی ہے تو ایسی صورت میں زمین کا عشر کرایہ دار کے ذمہ لازم ہوگا۔
اس زمانے میں کرایہ عموماً کم ہوتا ہے، اور اس کے مقابلہ میں مستاجر (کرایہ دار) کو بچت زیادہ ہوتی ہے، اس لیے موجودہ زمانے میں از روئے فتویٰ عشر کرایہ دار پر ہوگا۔
فتاویٰ شامی میں ہے:
"والعشر على المؤجر كخراج موظف وقالا علی المستأجر، وفي الحاوي: وبقولھما نأخذ وفي المزارعة إن کان البذر من ربّ الأرض فعلیه ولو من العامل فعلیہما بالحِصّة".
(كتاب الزكاة، فروع في زكاة العشر، 2/ 334، ط: سعيد)
وفیه أیضا:
"(قوله: وبقولهما نأخذ) قلت: لكن أفتى بقول الإمام جماعة من المتأخرين كالخير الرملي في فتاواه، وكذا تلميذ الشارح الشيخ إسماعيل الحائك مفتي دمشق وقال: حتى تفسد الإجارة باشتراط خراجها أو عشرها على المستأجر، كما في الأشباه، ... فإن أمكن أخذ الأجرة كاملةً يفتى بقول الإمام، وإلا فبقولهما؛ لما يلزم عليه من الضرر الواضح الذي لايقول به أحد".
( کتاب الزکاة، باب العشر، فروع في زکاة العشر، 2/ 334، ط: سعید)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144311100970
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن