بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 ذو الحجة 1446ھ 14 جون 2025 ء

دارالافتاء

 

عمرہ کرنے کا مکمل طریقہ بتائیں


سوال

سنت کے مطابق عمرہ کرنے کا مکمل طریقہ بتائیں، اور عورت سے متعلق جو مسائل ہیں، جیسے پردہ وغیرہ، ان کی بھی تفصیل بتادیں۔

جواب

1۔عمرے کا طریقہ یہ ہے کہ اگر ممکن ہو تو میقات پر ورنہ گھر میں پہلے آپ غسل کرکے احرام کی چادریں باندھ لیں اور دونوں کاندھے ڈھانپتے ہوۓ  2 رکعت نفل ادا کریں، پھر اگر میقات پر احرام باندھا ہو، تو وہیں تلبیہ پڑھ کر عمرہ کی  نیت کریں، اور گھر یا  اپنے شہر میں غسل کرکے  احرام باندھا ہو ،تو فی الحال نیت نہ کریں، یہاں تک کہ جب جہازپرواز کرجائے تو میقات آنے سے پہلے عمرے کی نیت کرکے تلبیہ پڑھیں، اور پھر دوران سفر مسجد الحرام تک  تلبیہ  کا ورد کرتے رہیں،  بیت اللہ میں داخل ہوتے ہوئے اگر فرض نماز کی جماعت کا وقت نہ ہو، تو پہلا  کام طواف کا ہی کریں، مطاف میں داخل ہوتے ہوئے اضطباع (دائیاں کاندھا ننگا) کرلیں،طواف حجر اسود سے شروع کریں،  طواف شروع کرنے سے پہلے طواف کی نیت کریں، پھر حجر اسود کی سیدھ میں کھڑے ہوکر جیسے نماز میں تکبیر تحریمہ کے لیے ہاتھ اٹھاتے ہیں  اسی طرح دونوں کانوں تک ہاتھ اٹھاکر تکبیر وتہلیل کہیں،  بسم الله، الله أکبرکہہ کر حجر اسود کو بوسہ دیں (اگر ممکن نہ ہو تو ) اسے ہاتھ لگا کر چوم لیں، (اور اگر یہ بھی ممکن نہ ہو) تو صرف ہاتھ سے اشارہ کر یں، جسے استلام کہا جاتا ہے، (آج کل چوں کہ حجر اسود پر خوشبو لگی ہوتی ہے، اس لیے احرام کی حالت میں اسے ہاتھ نہ لگائیں)اور پھر کل سات چکر کعبۃ اللہ کے لگائیں، پہلے تین چکروں میں ممکن ہوتو رمل کریں ( یعنی کاندھے ہلاتے ہوئے آہستہ دوڑیں)، یہ حکم صرف مردوں کے لیے ہیں، ہر چکر کی کوئی خاص دعا تو نہیں، لیکن آپ چند ایک دعائیں ضرور یاد کر لیں، اور دورانِ طواف اللہ وحدہ لا شریک کی زیادہ سے زیادہ تسبیح بیان کریں، ہر چکر میں حجر اسود کا استلام کریں، اور اگر ممکن کو تو رکن یمانی کو چھوئیں، اگر موقعہ نہ ملے تو اور کچھ نہ کریں(یعنی اشارہ کرنا یا اسے بوسہ دینا درست نہیں)،  رکن یمانی اور حجر اسود کے درمیان یہ دعاپڑھیں:

'' ربنا آتنا في الدنیا حسنةً وفي الآخرة حسنةً وقنا عذاب النار''

طواف کے سات چکروں کے بعد مقامِ ابراہیم علیہ السلام کے پاس دو رکعتیں نماز برائے طواف ادا کر لیں، اگر مقام ابراہیم  کے پاس نفل پڑھنا ممکن نہ ہو، تو پیچھے ہٹ کر حرم شریف میں جہاں جگہ ملے پڑھ لیں،  پھر آبِ زم زم (خوب) سیر ہو کر پییں، ممکن ہو تو ملتزم سے چمٹ کر خوب دعائیں کریں، (آج کل یہاں بھی خوشبو لگی ہوئی ہوتی ہے، اس لیے ملتزم سے چمٹے بغیر اس کی سیدھ میں کھڑے ہوکر دعا مانگ لیں) پھر حجر اسود کا استلام کرکے سعی کرنے کے لیے صفا کا رخ کریں اور اس پر چڑھتے ہوئے پڑھیں '' إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللهِ، أَبْدَأُ بِمَا بَدَأَ اللهُ بِه''،صفا پر چڑھ کر قبلہ رخ ہوکر تین مرتبہ " الله أكبر" کہیں، پھر تین مرتبہ یہ دعاپڑھیں:"لاإله إلا الله وحده لا شريك له، له الملک وله الحمد یحيي ویمیت وهو على كل شيءٍ قدیر، لا إله إلا الله وحده، أنجز وعده، ونصر عبده، وهزم الأحزاب وحده"، پھر جو دل چاہے دنیا و آخرت کی بھلائی کی دعائیں کریں، صفا سے نیچے اتریں اور چلنا شروع کریں، جب سبز رنگ کی لائٹ کے پاس پہنچیں تو وہاں سے لے کر دوسری سبز رنگ کی لائٹ تک مرد حضرات دوڑیں، پھر چلتے ہوئے مروہ پہنچیں اور وہاں وہی کچھ کریں جو صفا پر کیا تھا، صفا سے مروہ  تک ایک چکر شمار ہوتا ہے، کل سات چکر لگائیں، سعی کرنے کے بعد پورے  سر کے بال کتروائیں یا منڈوائیں اور احرام کھول دیں، جبکہ خواتین ایک پور کے بقدر بال کاٹیں۔

2۔عمرے کے دوران بھی عورت کے لیے  نامحرموں سے پردہ کرنا ضروری ہے، مکمل جسم کے ساتھ ساتھ چہرے کا پردہ کرنا بھی ضروری ہے، ہاں  احرام کی حالت میں عورت کے چہرے پر کپڑا نہیں لگناچاہیے، ایسی صورت اختیار کی جائے کہ چہرہ نظر بھی نہ آئے اور چہرے پر کپڑا بھی نہ لگے۔

مزید تفصیل جاننے کے لیے درج ذیل کتابوں کا مطالعہ مفید رہے گا:

1۔عمرہ اور حج کا آسان طریقہ، از مفتی انعام الحق صاحب قاسمی دامت برکاتہم

2۔معلم الحجاج، از مفتی سعید احمد صاحب رحمہ اللہ

أوجز المسالک میں ہے:

"وحدثني عن مالك، عن هشام بن عروة، عن فاطمة بنت المنذر أنها قالت: كنا نخمر وجوهنا ونحن محرمات، ونحن مع أسماء بنت أبي بكر الصديق...

قال ابن المنذر: أجمعوا على أن المرأة تلبس المخيط كله والخفاف، وأن لها أن تغطي رأسها ألا وجهها، فتسدل عليه الثوب سدلا خفيفا تستتر به عن نظر الرجال، ولا تخمر إلا ما روي عن فاطمة بنت المنذر فذكر ما ها هنا، ثم قال: ويحتمل أن يكون ذلك التخمير سدلا، كما جاء عن عائشه -رضي الله عنها- قالت: كنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم إذ مر بنا سدل الثوب على وجوهنا ونحن محرمات، فاذا جاوزنا رفعناه، أخرجه أبو داوود وابن ماجه، قال ذو الزرقاني."

(كتاب الحج، باب تخمير المحرم وجهه، ج:٦، ص:٤٠٥، ط:دارالقلم)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(والمرأة) فيما مر (كالرجل) لعموم الخطاب ما لم يقم دليل الخصوص (لكنها تكشف وجهها لا رأسها؛ ولو سدلت شيئا عليه وجافته عنه جاز) بل يندب ... وفي المحيط: ودلت المسألة على أن المرأة منهية عن إظهار وجهها للأجانب بلا ضرورة لأنها منهية عن تغطيته لحق النسك لولا ذلك، وإلا لم يكن لهذا الإرخاء فائدة اهـ ونحوه في الخانية. وفق في البحر بما حاصله أن محمل الاستحباب عند عدم الأجانب. وأما عند وجودهم فالإرخاء واجب عليها عند الإمكان، وعند عدمه يجب على الأجانب غض البصر."

(كتاب الحج، ج:٢، ص:٥٢٧-٥٢٨، ط:سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144605100240

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں