بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ادھار گاڑی خرید کر نقد میں بیچنا


سوال

 آدمی (آ) کو دس لاکھ روپے نقد کی ضرورت ہے،  اس نے دوسرے آدمی (ب) سے پندرہ لاکھ پر ایک گاڑی اس شرط پر خریدی کہ رقم دو سال کے بعد دیں گے۔ اب (آ) نے وہ گاڑی دس لاکھ نقد پر آدمی (ج) پر بیچی۔ اس طرح اس کو دس لاکھ نقد ملے۔ کیا اس کاروبار میں سود ہے؟

جواب

اگر (آ)، (ب) سے دو سال کے ادھار پر گاڑی خرید کر (ج) کو نقد بیچتا ہے اور (ج) دوبارہ یہ گاڑی (آ) کو نہیں بیچتا تو یہ  صورت جائز ہے۔

البتہ آج کل اس کی جو صورت رائج ہے کہ کسی کو قرض کی ضرورت ہو اور وہ قرض لینے آئے اور اسے قرض کی جگہ کوئی اور چیز دی جائے اور پھر وہی چیز اس سے دوبارہ خرید لی جائے، یا وہ تیسرے فرد کو بیچے اور تیسرا فرد پھر پہلے فرد کو بیچ دے، یا خریدار سے یہ کہا جائے کہ اس چیز کو فروخت کر کے اپنی ضرورت پوری کر لو اور مقصود گاڑی خریدنا نہ ہو، بلکہ اضافے کے بدلے قرض کا لین دین مقصود ہو تو اسے شریعت کی اصطلاح میں ’’بیعِ عینہ‘‘ کہتے ہیں جو کہ ناجائز ہے اور سود خوری کا ہی ایک راستہ ہے، اور رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قسم کے عقد کو رسوائی اور ذلت کا سبب قرار دیا ہے، جیسا کہ ’’سنن ابی داؤد‘‘ میں بروایت حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان منقول ہے کہ جب تک تم بیع عینہ کرتے رہوگے اور جانوروں کی دیکھ بھال میں لگے رہوگے اور زراعت میں گم ہوجاؤ گے اور جہاد چھوڑ دوگے تو اللہ تم پر ذلت و رسوائی مسلط کردے گا، یہاں تک کہ تم دوبارہ دین کی طرف نہ لوٹ آؤ۔

’’عن ابن عمر رضي الله عنهما قال: قال رسول الله صلي الله عليه وسلم: إذا تبايعتهم العينة، و أخذتم أذناب البقر، و رضيتم بالزرع، و تركتم الجهاد، سلط الله عليكم الذلة، لاينزعه حتي ترجعوا إلی دينكم‘‘. (رقم الحديث: ٣٤٦٢)

لہذا اگر اس طرح کا عقد کرلیا ہے تو اسے فوری طور پر ختم کر دینا چاہیے اور اللہ رب العزت سے اپنے اس عمل پر سچے دل سے فوری طور پر توبہ کرنا ضروری ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

’’(قَوْلُهُ: فِي بَيْعِ الْعِينَةِ) اخْتَلَفَ الْمَشَايِخُ فِي تَفْسِيرِ الْعِينَةِ الَّتِي وَرَدَ النَّهْيُ عَنْهَا. قَالَ بَعْضُهُمْ: تَفْسِيرُهَا أَنْ يَأْتِيَ الرَّجُلُ الْمُحْتَاجُ إلَى آخَرَ وَيَسْتَقْرِضَهُ عَشَرَةَ دَرَاهِمَ وَلَايَرْغَبُ الْمُقْرِضُ فِي الْإِقْرَاضِ طَمَعًا فِي فَضْلٍ لَايَنَالُهُ بِالْقَرْضِ، فَيَقُولُ: لَا أُقْرِضُك، وَلَكِنْ أَبِيعُك هَذَا الثَّوْبَ إنْ شِئْت بِاثْنَيْ عَشَرَ دِرْهَمًا، وَقِيمَتُهُ فِي السُّوقِ عَشَرَةٌ، لِيَبِيعَهُ فِي السُّوقِ بِعَشَرَةٍ، فَيَرْضَى بِهِ الْمُسْتَقْرِضُ فَيَبِيعُهُ كَذَلِكَ، فَيَحْصُلُ لِرَبِّ الثَّوْبِ دِرْهَمًا، وَلِلْمُشْتَرِي قَرْضُ عَشَرَةٍ. وَقَالَ بَعْضُهُمْ: هِيَ أَنْ يُدْخِلَا بَيْنَهُمَا ثَالِثًا، فَيَبِيعُ الْمُقْرِضُ ثَوْبَهُ مِنْ الْمُسْتَقْرِضِ بِاثْنَيْ عَشَرَ دِرْهَمًا، وَيُسْلِمُهُ إلَيْهِ ثُمَّ يَبِيعُهُ الْمُسْتَقْرِضُ مِنْ الثَّالِثِ بِعَشَرَةٍ وَيُسْلِمُهُ إلَيْهِ، ثُمَّ يَبِيعُهُ الثَّالِثُ مِنْ صَاحِبِهِ وَهُوَ الْمُقْرِضُ بِعَشَرَةٍ وَيُسْلِمُهُ إلَيْهِ، وَيَأْخُذُ مِنْهُ الْعَشَرَةَ وَيَدْفَعُهَا لِلْمُسْتَقْرِضِ فَيَحْصُلَ لِلْمُسْتَقْرِضِ عَشَرَةٌ وَلِصَاحِبِ الثَّوْبِ عَلَيْهِ اثْنَا عَشَرَ دِرْهَمًا، كَذَا فِي الْمُحِيطِ، ... وَقَالَ مُحَمَّدٌ: هَذَا الْبَيْعُ فِي قَلْبِي كَأَمْثَالِ الْجِبَالِ ذَمِيمٌ اخْتَرَعَهُ أَكَلَةُ الرِّبَا. وَقَالَ عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ: «إذَا تَبَايَعْتُمْ بِالْعِينَةِ وَاتَّبَعْتُمْ أَذْنَابَ الْبَقَرِ ذَلَلْتُمْ وَظَهَرَ عَلَيْكُمْ عَدُوُّكُمْ»‘‘. (٥/٢٧٣)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144201201196

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں