بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

8 رمضان 1445ھ 19 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

ٹوپی کا حکم


سوال

اسلام میں ٹوپی کا کیا حکم ہے؟ سنت ہے یا مستحب، اور نہ پہننے پر گناہ تو نہیں؟

جواب

واضح رہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عمومی اَحوال میں عمامہ یا ٹوپی کے ذریعہ سر مبارک کو ڈھانپا کرتے تھے؛ اس لیے سر پر عمامہ یا ٹوپی پہننا سننِ زوائد میں سے ہے جس کا درجہ مستحب کا ہے۔ اور سر کا ڈھانپنا لباس کا حصہ ہے۔ صحابہ کرام علیہم الرضوان اور صلحائے امت کا بھی یہی معمول تھا۔ بعض صحابہ کرام کا جو ٹوپی یا عمامہ نہ پہننا احادیث میں مذکور ہے، وہ   تنگ دستی کے زمانے کی بات ہے، جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے ہر ایک کے پاس دو کپڑے بھی نہیں ہوتے تھے۔

کبھی کبھار ننگے سر ہوجانا گناہ نہیں، البتہ مستقل طور پرننگے سر رہنا شرعاً ناپسندیدہ اور خلافِ ادب ہے، اور ننگے سر رہنے کو معمول اور فیشن بنالینا اسلامی تہذیب کے خلاف ہے۔

زاد المعاد في هدي خير العباد (1/ 130):

"فصل في ملابسه صلى الله عليه وسلم

كانت له عمامة تسمى: السحاب كساها علياً، وكان يلبسها ويلبس تحتها القلنسوة. وكان يلبس القلنسوة بغير عمامة، ويلبس العمامة بغير قلنسوة."

مفتی رشیداحمد گنگوہی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

"سر برہنہ ہونا احرام میں ثابت ہے، سوائے احرام کے بھی احیاناً ہوگئے ہیں، نہ کہ دائماً چلتے پھرتے تھے‘‘۔

(فتاوی رشیدیہ ،ص:590)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 200076

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں