بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

5 ذو الحجة 1446ھ 02 جون 2025 ء

دارالافتاء

 

عشاء کی نماز فاسد ہوجائے تو تراویح کا حکم


سوال

رمضان میں عشاء کی نماز پانچ رکعت ہوئی اور کسی کو یاد بھی نہیں رہا  اسی حالت میں تراویح بھی مکمل ہوگئی بعد میں پتہ چلا کہ عشاء کی پانچ رکعت ہوئی تھیں، تو  اب کیا حکم ہے؟

کیا عشاء کی نماز کے ساتھ تراویح بھی لوٹانا پڑے گی اور جو پارہ پڑھا گیا ہے کیا اس کا دوبارہ پڑھنا بھی ضروری ہے یا پھر صرف تراویح لوٹانی ہوگی؟

جواب

واضح رہے کہ تراویح کا وقت عشاء کی نماز کے بعد شروع ہوتا ہے، اسی طرح  تراویح  عشاء کی نماز  کے تابع ہے، اس لیے عشاءکی نماز پڑھے  بغیر تراویح ادا نہیں ہوتی ، اگر کسی نے عشاء سے پہلے تراویح پڑھی ہو یا عشاء کی نماز فاسد ہو گئی  تھی، اور نماز کا اعادہ کیے بغیر    تراویح پڑھ لی ہو، تو وہ تراویح نفل شمار ہوگی، پس عشاء  کی نماز کے اعادہ کے بعد اسی رات صبح صادق سے پہلے پہلے تک تراویح  کا اعادہ کرنا بھی ضروری  ہوگا، تاہم وتر کا اعادہ لازم نہیں ہوگا، البتہ  اگر وقت نکل چکا ہو یعنی صبح صادق ہوچکی ہو، تو گزشتہ رات کی  تراویح کی قضاء لازم  نہیں ہوگی۔ 

بہر صورت  مذکورہ  تراویح میں جو پارہ پڑھا گیا  ہو،  اس کا لوٹانا ضروری ہوگا،تاکہ سنت کے مطابق تراویح  میں قرآن کریم کی تکمیل  ہوجائے۔

فتح القدیر میں ہے:

"والأصح أن وقتها بعد العشاء إلى آخر الليل قبل الوتر وبعده لأنها نوافل سنت بعد العشاء،"

(کتاب الصلاۃ ،فصل فی قیام شہر رمضان،ج:1،ص:469،ط:شركة مكتبة ومطبعة مصفى البابي الحلبي)

حاشیۃ الطحطاوی میں ہے:

""ووقتها" ما "بعد صلاة العشاء" على الصحيح إلى طلوع الفجر "و" لتبعيتها للعشاء "يصح تقديم الوتر على التراويح وتأخيره عنها" وهو أفضل حتى لو تبين فساد العشاء دون التراويح والوتر أعادوا العشاء ثم التراويح دون الوتر عند أبي حنيفة لوقوعها نافلة مطلقة بوقوعها في غير محلها وهو الصحيح"

وفیہ ایضاً:

"وسن ختم القرآن فيها" أي التراويح "مرة في الشهر"

وفیہ ایضاً:

"ولا تقضى التراويح" أصلا "بفواتها" عن وقتها "منفردا ولا بجماعة" على الأصح لأن القضاء من خصائص الواجبات وإن قضاها كانت نفلا مستحبا لا تراويح وهي سنة الوقت لا سنة الصوم في الأصح فمن صار أهلا للصلاة في آخر اليوم يسن له التراويح كالحائض إذا طهرت والمسافر والمريض المفطر."

(کتاب الصلاۃ ،فصل فی صلاۃ التراویح ،ص:413/416،ط:دار الكتب العلمية بيروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144609102277

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں