ایک آدمی کو اپنے والد کے میراث میں 31 کنال زمین ملی ہے ، لیکن والد نے اپنی بہنوں کا حصہ نہیں دیا تھا اب حکومت نے ان 31 کنال زمین کو 32 ہزار فی کنال ہمارے مرضی کے بغیر ٹاون کیلئے لے لیاہے، لیکن والد کی بہنیں اب وفات پا چکی ہیں،ان کی نابالغ اولاد ہے، ان 31 کنال زمین کے قیمت سے ہم نے چار دوکانیں خریدی ہے ، 96، 96 ہزار فی دوکان کے قیمت سے میں نے ان دوکانوں کی قیمت لگاکر جو کہ ابھی 27 لاکھ بنتے ہیں تو میں نے ان 27 لاکھ روپیوں میں سے نابالغوں کا حصہ دیا لیکن حکومت نے میری والد سے جو زمین لے لی ہے یعنی 31 کنال ، اب اس کی قیمت مجموعہ 93 کروڑ ہے ،تو مجھے یہ پوچھنا ہے کہ نابالغوں کا حصہ 27 لاکھ میں ہوگا یا کہ 93 کروڑ میں ہوگا؟
صورت مسئولہ میں چوں کہ حکومت نے مذکورہ جگہ مذکورہ قیمت کے اعتبار سے خریدی ہے جس کے ۲۷ لاکھ روپے بنتے ہیں تو ترکہ میں صرف 27 لاکھ موجود ہے، لہذا نابالغوں کا حصہ 27لاکھ میں ہوگا۔
تنقیح الفتاوی الحامدیہ میں ہے:
"فإذا كان عقد البيع أو القرض وقع على نوع معين منها كالريال الفرنجي مثلا فلا شبهة في أن الواجب دفع مثل ما وقع عليه البيع أو القرض."
(کتاب الصرف، ج:1، ص:281، ط:دار المعرفة)
فتاوی رحیمیہ میں ایک سوال کے جواب میں ہے:
"جس وقت ترکہ تقسیم کیا جائے اس وقت کی قیمت کا اعتبار ہوگا،یہ حقوق العباد کا معاملہ ہے، اس میں بہت احتیاط کی ضرورت ہے"۔
(کتاب المیراث ،283/10،ط:دار الاشاعت)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144501101427
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن