بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 ذو الحجة 1446ھ 13 جون 2025 ء

دارالافتاء

 

تاریخ کعبہ


سوال

 میرا سوال قبلہ اول اور مکہ مکرمہ کے بارے میں ہے، کہ مکہ کی طرف سب سے پہلے نماز کس نبی نے ادا کی تھی اور جب بیت المقدس کی طرف نماز پڑھتے تھے تو صرف وہی ایک قبلہ تھا، قبلہ کی پوری وضاحت کریں تو بڑی مہربانی ہوگی، کہ کس طرح سے دوسرا قبلہ وجود میں آیا، کس نے تعمیر کری اور سب سے پہلی نماز شروع کب ہوئی، جب نماز شروع ہوئی تو کیا اس کی طرف جو قبلہ اول ہے وہاں نماز پڑھنا بند ہو گئی تھی؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں مکہ مکرمہ(بیت اللہ)کی طرف رخ کرکے سب سے پہلے کس نبی نےنماز اداکی تھی اس کی وضاحت ہمیں نہیں مل سکی، لیکن روایات سے یہ معلوم ہوتاہےکہ سب سےپہلےزمین پرعبادت کے لیےجوجگہ مقررکی گئی وہ بیت اللہ (خانہ کعبہ)ہے، باقی کس طرح سےدوسراقبلہ وجود میں آیااورکیاایک قبلہ مقررہونے کے بعد دوسرے قبلہ کی طرف نماز پڑھناچھوڑدیاگیا؟تو اس کے بارے میں تفصیل یہ ہے کہ  حضرت عبداللہ بن عباس (رضی اللہ عنہما) کا قول یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدینہ منورہ کی طرف ہجرت سے پہلے مکہ مکرمہ میں جب نماز فرض ہوئی اس وقت قبلہ بیت المقدس تھا جو ہجرت کے بعد بھی سولہ سترہ مہینہ تک باقی رہا، اس کے بعد بیت اللہ کو قبلہ بنانے کے احکام نازل ہوگئے،  البتہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا عمل مکہ مکرمہ میں یہ رہا کہ آپ حجرِ  اسود اور رکن یمانی کے درمیان نماز پڑھتے تھے؛ تاکہ بیت اللہ بھی سامنے رہے اور بیت المقدس کا بھی استقبال ہوجائے،  مدینہ منورہ پہنچنے کے بعد یہ ممکن نہ رہا اس لیے تحویلِ  قبلہ کا اشتیاق پیدا ہوا۔

 اور دوسرا قول یہ ہے کہ جب نماز فرض ہوئی تو مکہ مکرمہ میں بھی مسلمانوں کا ابتدائی قبلہ بیت اللہ ہی تھا؛ کیوں کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) واسماعیل (علیہ السلام) کا قبلہ بھی بیت اللہ ہی رہا تھا اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب تک مکہ مکرمہ میں مقیم رہے بیت اللہ ہی کی طرف نماز پڑھتے رہے، پھر ہجرت کے بعد آپ کا قبلہ بیت المقدس قرار دے دیا گیا اور مدینہ منورہ میں سترہ مہینے آپ نے بیت المقدس کی طرف نماز پڑھی، اس کے بعد پھر آپ کا جو پہلا قبلہ تھا یعنی بیت اللہ اسی کی طرف نماز میں توجہ کرنے کا حکم آگیا،  تفسیر قرطبی میں بحوالہ ابو عمرو اسی کو اصح القولین قرار دیا ہے اور حکمت اس کی یہ بیان کی جاتی ہے کہ مدینہ منورہ میں تشریف لانے کے بعد چوں کہ قبائلِ یہود سے سابقہ پڑا تو آں حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو مانوس کرنے کے لیے ان ہی کا قبلہ باذنِ خداوندی اختیار کرلیا،  مگر پھر تجربہ سے ثابت ہوا کہ یہ لوگ اپنی ہٹ دھرمی سے باز آنے والے نہیں تو پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے اصلی قبلہ یعنی بیت اللہ کی طرف رخ کرنے کا حکم مل گیا، جو آپ کو اپنے آباء ابراہیم واسماعیل علی نبیناوعلیہماالصلاۃ والسلام کا قبلہ ہونے کی وجہ سے طبعاً محبوب تھا۔

اور جن حضرات نے پہلا قول اختیار کیا ہے ان کے نزدیک حکمت یہ تھی کہ مکہ مکرمہ میں تو مشرکین سے امتیاز اور ان سے مخالفت کا اظہار کرنا تھا، اس لیے ان کا قبلہ چھوڑ کر بیت المقدس کو قبلہ بنادیا گیا، پھر ہجرت کے بعد مدینہ طیبہ میں یہود و نصاریٰ سے امتیاز اور ان کی مخالفت کا اظہار مقصود ہوا تو ان کا قبلہ بدل کر بیت اللہ کو قبلہ بنادیا گیا ۔(مزیدتفصیل کے لیے دیکھیں"معارف القرآن مفتی محمد شفیع عثمانی رحمہ اللہ"، ج:1،ص:374)

نیز خانہ کعبہ(بیت اللہ)کی تعمیر پہلے حضرت آدم علیہ السلام نے کی پھرطوفان نوح میں منہدم ہونے کے بعد انہی بنیادوں پرحضرت ابراہیم علیہ السلام نے تعمیر کی ،اس کے بعد مختلف ادوار میں مختلف لوگوں نے بیت اللہ کی تعمیروتوسیع کی۔

التمہید لابن عبد البر میں ہے:

"عن قتادة في قوله: {إن أول بيت وضع للناس للذي ببكة مباركا} [آل عمران: 96] قال: أول بيت وضعه الله في الأرض، فطاف به آدم فمن بعده.وذكر عبد الرزاق، عن ابن جريج، عن عطاء وابن المسيب وغيرهما: أن الله عز وجل أوحى إلى آدم إذ أهبط إلى الأرض: ابن لي بيتا، ثم احفف به كما رأيت الملائكة تحف ببيتي الذي في السماء. قال عطاء: فزعم الناس أنه بناه من خمسة أجبل: من حراء، ومن طور سيناء، ومن لبنان، ومن الجودي ومن طور زيتا، وكان ربضه من حراء، فكان هذا بناء آدم صلوات الله عليه، ثم بناه إبراهيم عليه السلام."

(باب الميم، ج:6، ص:462، ط:مؤسسة الفرقان للتراث الإسلامي لندن)

مختصر تفسير ابن كثير للصابونی میں ہے:

"عن البراء رضي الله عنه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم صلى إلى بيت المقدس ستة عشر شهرا أو سبعة عشر شهرا، وكان يعجبه أن تكون قبلته قبل البيت، وأنه صلى أول صلاة صلاها صلاة العصر وصلى معه قوم فخرج رجل ممن كان صلى معه فمر على أهل المسجد وهم راكعون، فقال: أشهد بالله لقد صليت مع النبي صلى الله عليه وسلم قبل مكة، فداروا كما هم قبل البيت وكان الذي قد مات على القبلة قبل أن تحول قبل البيت رجالا قتلوا لم ندر ما نقول فيهم فأنزل الله: {وما كان الله ليضيع إيمانكم إن الله بالناس لرءوف رحيم (رواه البخاري وأخرجه مسلم من وجه آخر)}

وعن البراء قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي نحو بيت المقدس، ويكثر النظر إلى السماء ينتظر أمر الله، فأنزل الله: {قد نرى تقلب وجهك في السماء فلنولينك قبلة ترضاها فول وجهك شرط المسجد الحرام} فقال رجال من المسلمين: وددنا لو علمنا علم من مات منا قبل أن نصرف إلى القبلة، وكيف بصلاتنا نحو بيت المقدس؟ فأنزل الله: {وما كان الله ليضيع إيمانكم} وقال السفهاء من الناس - وهم أهل الكتاب - ما ولاهم عن قبلتهم التي كانوا عليها؟ فأنزل الله: {سيقول السفهاء من الناس (رواه ابن أبي حاتم)} إلى آخر الآية. وعن ابن عباس أن رسول الله صلى الله عليه وسلم لما هاجر إلى المدينة أمره الله أن يستقبل بيت المقدس، ففرحت اليهود فاستقبلها رسول الله صلى الله عليه وسلم بضعة عشر شهرا. وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم يحب قبلة إبراهيم، فكان يدعو الله وينظر إلى السماء فأنزل الله عز وجل: {فولوا وجوهكم شطره} أي نحوه، فارتاب من ذلك اليهود وقالوا: ما ولاهم عن قبلتهم التي كانوا عليها؟ فأنزل الله: {قل لله المشرق والمغرب يهدي من يشاء إلى صراط مستقيم (رواه ابن أبي حاتم)} وقد جاء في هذا الباب أحاديث كثيرة وحاصل الأمر: أنه قد كان رسول الله صلى الله عليه وسلم أمر باستقبال الصخرة من بيت المقدس، فكان بمكة يصلي بين الركنين فتكون بين يديه الكعبة وهو مستقبل صخرة بيت المقدس، فلما هاجر إلى المدينة تعذر الجمع بينهما فأمره الله بالتوجه إلى بيت المقدس قاله ابن عباس والجمهور.

والمقصود أن التوجه إلى بيت المقدس بعد مقدمه صلى الله عليه وسلم المدينة واستمر الأمر على ذلك بضعة عشر شهرا، وكان يكثر الدعاء والابتهال أن يوجه إلى الكعبة التي هي قبلة إبراهيم عليه السلام، فأجيب إلى ذلك وأمر بالتوجه إلى البيت العتيق."

(ج:1، ص:134، ط:دار القرآن الكريم بيروت)

معارف القرآن (مفتی محمد شفیع عثمانیؒ )میں ہے:

"سب پہلا گھر جو من جانب اللہ لوگوں کے لئے مقرر کیا گیا ہے وہ ہے جو مکہ میں ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا میں سب سے پہلا عبادت خانہ کعبہ ہے، اس کی یہ صورت بھی ہو سکتی ہے کہ دنیا کے سب گھروں میں پہلا گھر عبادت ہی کے لئے بنایا گیا ہو، اس سے پہلے نہ کوئی عبادت خانہ ہو نہ دولت خانه، حضرت آدم علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے نبی ہیں ، ان کی شان سے کچھ امید نہیں کہ انھوں نے زمین پر آنے کے بعد اپنا گھر بنانے سے پہلے اللہ کا گھر یعنی عبادت کی جگہ بنائی ہو، اسی لئے حضرت عبدالله بن عمر، مجاہد، قتاده، سدی، وغیرہ صحابہ و تابعین اسی کے قائل ہیں کہ کعبہ دنیا کا سب سے پہلا گھر ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ لوگوں کے رہنے سہنے کے مکانات پہلے بھی بن چکے ہوں مگر عبادت کے لئے یہ پہلا گھر بنا ہو، حضرت علی رضی اللہ عنہ سے یہی منقول ہے۔ 

بیہقی نے اپنی کتاب دلائل النبوۃ میں بروایت حضرت عبد الله بن عمرو بن عاص روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حضرت آدم و حواء علیہما السلام کے دنیا میں آنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے جبرئیل امین کے ذریعہ ان کو یہ حکم بھیجا کہ وہ بیت اللہ (کعبہ) بنائیں، ان حضرات نے حکم کی تعمیل کرلی تو ان کو حکم دیا گیا کہ اس کا طواف کریں، اور ان سے کہا گیا کہ آپ اول الناس یعنی سب سے پہلے انسان ہیں ، اور یہ گھر اول بيت وضع لِلنَّاسِ ہے ، یعنی سب سے پہلا گھر جو لوگوں کے لئے مقرر کیا گیا ہے (ابن کثیر) ضعفه ابن کثیر با بن لهیعه ولا یخفی أنه ليس بمتروک الحديث مطلقا ولا سيما في هذا المقام فإن الرواية قد تأيدت بإشارات الكتاب۔

بعض روایات میں ہے کہ آدم علیہ السلام کی یہ تعمیر کعبہ نوح علیہ السلام کے زمانے تک باقی تھی، طوفان نوح میں منہدم ہوئی، اور اس کے نشانات مٹ گئے، اس کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام نے انہی بنیادوں پر دوبارہ تعمیر کیا، پھر ایک مرتبہ کسی حادثہ میں اس کی تعمیر منہدم ہوئی تو قبیلہ جرہم کی ایک جماعت نے اس کی تعمیر کی، پھر ایک مرتبہ منہدم ہوئی تو عمالقہ نے تعمیر کی اور پھر منہدم ہوئی تو قریش نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ابتدائی زمانہ میں تعمیر کی جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی شریک ہوئے اور حجر اسود کو اپنے دست مبارک سے قائم فرمایا ، لیکن قریش نے اس تعمیر میں بناء ابراہیمی سے کسی قدر مختلف تعمیر کی تھی کہ ایک حصہ بیت اللہ کا بیت اللہ سے الگ کر دیا جس کو حطیم کہا جاتا ہے اور خلیل اللہ علیہ السلام کی بناء میں کعبہ کے دو دروازے تھے ، ایک داخل ہونے کے لئے دوسرا پشت کی جانب باہر نکلنے کے لئے، قریش نے صرف مشرقی دروازہ کو باقی رکھا، تیسرا تغیر یہ کیا کہ دروازہ بیت اللہ کا سطحِ زمین سے کافی بلند کر دیا تاکہ ہر شخص آسانی سے اندر نہ جاسکے، بلکہ جس کو وہ اجازت دیں وہی جاسکے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ صدیقہ سے فرمایا کہ میرا دل چاہتا ہے کہ۔۔موجودہ تعمیر کو منہدم کر کے اس کو بالکل بنا ءا براہیمی کے مطابق بنادوں، قریش نے جو تصرفات بناء ابراہیمی کے خلاف کیے ہیں اُن کی اصلاح کردوں ، لیکن نو مسلم نا واقف مسلمانوں میں غلط فہمی پیدا ہونے کا خطرہ ہے، اسی لیے سر دست اس کو اسی حال پر چھوڑتا ہوں، اس ارشاد کے بعد اس دنیا میں آپ کی حیات زیادہ نہیں رہی۔ 

لیکن حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے بھانجے حضرت عبداللہ بن زبیر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد سنے ہوئے تھے، خلفا ۓ راشدین کے بعد جس وقت مکہ مکرمہ پر ان کی حکومت ہوئی تو انھوں نے بیت اللہ منہدم کر کے ارشاد نبوی اور بناء ابراہیمی کے مطابق بنا دیا ، مگر عبد اللہ بن زبیر کی حکومت مکہ معظمہ پر چند روزہ تھی، ظالم الامتہ حجاج بن یوسف نے مکہ پر فوج کشی کر کے ان کو شہید کیا ، اور حکومت پر قبضہ کر کے اس کو گوارانہ کیا کہ عبد اللہ بن زبیر کا یہ کارنامہ رہتی دنیا تک ان کی مدح و ثناء کا ذریعہ بنار ہے، اس لیے لوگوں میں یہ مشہور کیا کہ عبد اللہ بن زبیر کا یہ فعل غلط تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو جس حالت پر چھوڑا تھا ہمیں اسی حالت پر اس کو رکھنا چاہئے ، اس بہانے سے بیت اللہ کو پھر منہدم کر کے اسی طرح کی تعمیر بنادی جو زمانہ جاہلیت میں قریش نے بنائی تھی، حجاج بن یوسف کے بعد آنے والے بعض مسلم بادشاہوں نے پھر حدیث مذکور کی بناء پر یہ ارادہ کیا کہ بیت اللہ کو از سر نو حدیث رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے موافق بنا دیں ، لیکن اس زمانہ کے امام حضرت امام مالک بن انس نے یہ فتوی دیا کہ اب بار بار بیت اللہ کو منہدم کرنا اور بنانا آگے آنیوالے بادشاہوں کے لیے بیت اللہ کو ایک کھلونا بنادے گا، ہر آنے والا بادشاہ اپنی نام آوری کے لیے یہی کام کرے گا، اس لیے اب جس حالت میں بھی ہے اس حالت میں چھوڑ دینا مناسب ہے تمام امت نے اس کو قبول کیا، اسی وجہ سے آج تک وہی حجاج بن یوسف ہی کی تعمیر باتی ہے، البته شکست و ریخت اور مرمت کا سلسلہ ہمیشہ جاری رہا۔ 

ان روایات سے ایک تو یہ معلوم ہوا کہ کعبہ دنیا کا سب پہلا گھر ہے، اور یا کم از کم سب سے پہلا عبادت خانہ ہے، قرآن کریم میں جہاں یہ ذکر ہے کہ کعبہ کی تعمیر بامر خدا و ندی حضرت ابراهیم و اسماعیل علیہما السلام نے کی ہے وہیں اس کے اشارات بھی موجود ہیں کہ ان بزرگوں نے اس کی ابتدائی تعمیر نہیں فرمائی، بلکہ سابق بنیادوں پر اسی کے مطابق تعمیر فرمائی، اور کعبہ کی اصل بنیاد پہلے ہی سے تھی ، قرآن کریم کے ارشاد وإذیرْفَعُ إِبْرَاهِيمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَيْتِ وإ سمٰعيل(الآية، 127:2) سے بھی ایسا ہی مفہوم ہوتا ہے کہ قواعد بیت اللہ یعنی اس کی بنیادیں پہلے سے موجود ہیں ۔"

(فضائلِ بیت اللہ مع تاریخ تعمیر، ج:2، ص:114، ط:مکتبہ معارف القرآن کراچی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144608101416

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں