میرے والد صاحب نے اپنی شادی کے موقع پر میری والدہ کو مہر دس تولہ سونا، دس کنال زمین اور ایک مکان دیا تھا، اور انہیں ان اشیاء کا قبضہ اور ملکیت بھی دے دی گئی تھی۔ اب میری والدہ کا انتقال ہو چکا ہے، ان کے ورثاء میں شوہر (میرے والد)، تین بیٹے، تین بیٹیاں، ان کے والد (یعنی میرے نانا) اور ان کی والدہ شامل ہیں۔
والدہ کے ترکہ میں دس تولہ سونا، دس کنال زمین اور ایک مکان موجود ہیں۔ والدہ کے انتقال کے بعد میرے نانا نے دس تولہ سونا اور تین کنال زمین پر قبضہ کر لیا ہے اور یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ وہ اس ترکہ میں ان کے وارث کی حیثیت سے حق دار ہیں۔
براہ کرم درج ذیل امور کی شرعی وضاحت فرمائیں:
1۔ کیاوالدہ کے والد (یعنی نانا) کا وراثت میں حصہ بنتا ہے؟ اگر بنتا ہے تو کتنا بنتا ہے؟
2۔والدہ کے ترکہ کی شرعی طور پر ورثاء میں تقسیم کیسے ہو گی؟
1۔واضح رہے کہ سائل کے نانا، چونکہ ان کی بیٹی (یعنی سائل کی والدہ) کے انتقال کے وقت حیات ہیں، اس لیے وہ شرعی طور پر ان کے وارث ہیں، اور وہ اپنی بیٹی کی میراث میں اپنے شرعی حصہ کے بقدر حقدار ہیں ،البتہ دوسرے ورثاءکی رضامندی کے بغیرترکہ میں سے اس طرح کچھ لے لیناان کےلئے جائزنہیں ،کیونکہ ترکہ سے تمام ورثاءکاحق وابستہ ہوتاہے۔
2۔ صورت مسئولہ میں مرحومہ کے ترکے کی تقسیم کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلےاگر مرحومہ کے ذمہ کوئی قرض ہو تو اسے کل ترکہ سے ادا کرنے کے بعداور اگر مرحومہ نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو اسے باقی ترکہ کے ایک تہائی میں سے نافذ کرنے کے بعد کل ترکہ منقولہ وغیر منقولہ کے108حصے کرکے مرحومہ کےشوہرکو27حصےاورمرحومہ کے والدکو18حصےاورمرحومہ کی والدہ کو18حصےاور مرحومہ کے ہرایک بیٹے کو 10حصےاورمرحومہ کی ہرایک بیٹی کو5حصےملیں گے۔
صورت تقسیم یہ ہے:
میت :سائل کی والدہ:108/12
شوہر | والدہ | والد | بیٹا | بیٹا | بیٹا | بیٹی | بیٹی | بیٹی |
3 | 2 | 2 | 5 | |||||
27 | 18 | 18 | 10 | 10 | 10 | 5 | 5 | 5 |
یعنی فیصدکے اعتبارسے مرحومہ کے شوہرکو25فیصداورمرحومہ کے والد(سائل کانانا)کو16.666فیصد مرحومہ کی والدہ کو16.666فیصداورمرحومہ کے ہرایک بیٹے کو9.259فیصداورمرحومہ کی ہرایک بیٹی کو4.629فیصدملے گا۔
فتاوی عالمگیریہ میں ہے:
"(الباب الرابع في الحجب) وهو نوعان: حجب نقصان وحجب حرمان. فحجب النقصان هو الحجب من سهم إلى سهم، وأما حجب الحرمان فنقول: ستة لا يحجبون أصلا، الأب والابن والزوج والأم والبنت والزوجة."
(کتاب الفرائض ،الباب الرابع،ج:6،ص: 452،ط:المطبعة الكبرى الأميرية ببولاق مصر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144611100157
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن