سودی رقم کس کو دی جاۓ؟
سود کی رقم لینا ہی حرام ہے، البتہ اگر کسی نےلاعلمی میں سود کی رقم لے لی ہو اور اب وہ اس گناہ سے توبہ اور تلافی کرنا چاہتا ہو تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ سود کی رقم جس سے لی ہو اگر وہ مالک معلوم ہے اور زندہ ہے تو اُسی رقم کے مالک کو وہ رقم واپس لوٹادے، اگر مالک زندہ نہیں ہے تو اس کے ورثاء کو لوٹادی جائے، اور اگر مالک معلوم ہی نہیں ہے تو پوری کوشش سے مالک معلوم کرنے کی کوشش کی جائے، اگر پوری کوشش اور تمام ذرائع استعمال کرنے کے باوجود بھی اصل مالک یا اس کے ورثاء معلوم نہ ہوسکیں یا ان تک پہنچانا ممکن نہ ہو تو ثواب کی نیت کے بغیر اصل مالک کی طرف سے کسی مستحقِ زکات کو دینا ضروری ہوگا، نیز جب تک اصل مالک یا اس کے ورثاء کو رقم لوٹانا ممکن ہو تو اس رقم کو صدقہ کرنا جائز نہیں ہے۔
فتاوی شامی میں ہے:
"ويردونها على أربابها إن عرفوهم، وإلا تصدقوا بها؛ لأن سبيل الكسب الخبيث التصدق إذا تعذر الرد على صاحبه."
(كتاب الحظر والاباحة، ج:6، ص:385، ط:ايج ايم سعيد)
معارف السنن شرحِ جامع الترمذی (لمولانا محمد یوسف بنوری الحسینی، المتوفیٰ:1977) میں ہے:
"قال شیخنا: ویستفاد من کتب فقهائنا کالهدایة وغیرها: أن من ملك بملك خبیث، ولم یمكنه الرد إلى المالك، فسبیله التصدقُ علی الفقراء ...
قال: و الظاهر أن المتصدق بمثله ینبغي أن ینوي به فراغ ذمته، ولایرجو به المثوبة."
(أبواب الطهارة، باب ما جاء: لاتقبل صلاة بغیر طهور، مسئلۃ فاقد الطهرین، ج:1، ص:34، ط: ایج ایم سعید)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144212201560
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن