کیا سود کی رقم سے بغیر ثواب کی نیت کے کسی غریب مجبور کی مدد کی جاسکتی ہے؟
سودی رقم کے بارے میں شرعی حکم یہ ہے کہ اسے اصل مالک تک پہنچایا جائے اور مالک کا انتقال ہوچکا ہو تو اس کے ورثہ تک پہنچایا جائے، اگر اس کے مالک یا ورثاء تک پہنچانا ممکن نہ ہو تو بغیر ثواب کی نیت کے کسی غریب کو صدقہ کردی جائے؛ لہذا اگر اصل مالک تک پہنچانا ممکن ہو تو اسے پہنچا دی جائے، بصورتِ دیگر کسی غریب کو بغیر ثواب کی نیت کے صدقہ کرنا ضروری ہے (اختیاری نہیں ہے)۔
العرف الشذي شرح سنن الترمذي (1/ 38):
إن ها هنا شيئان:
أحدهما: ائتمار أمر الشارع والثواب عليه.
والثاني: التصدق بمال خبيث، والرجاء من نفس المال بدون لحاظ رجاء الثواب من امتثال الشارع، فالثواب إنما يكون على ائتمار الشارع، وأما رجاء الثواب من نفس المال فحرام، بل ينبغي لمتصدق الحرام أن يزعم بتصدق المال تخليص رقبته ولا يرجو الثواب منه، بل يرجوه من ائتمار أمر الشارع، وأخرج الدارقطني في أواخر الكتاب: أن أبا حنيفة رحمه الله سئل عن هذا فاستدل بما روى أبو داود من قصة الشاة والتصدق بها.
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144201200555
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن