کیا ارادتاً سودی کاروبار سے پیسے کما کر غریب عوام کی مدد کی جا سکتی ہے، کیا یہ وسیلہ ہے ہماری بخشش کا؟
واضح رہے کہ سودی معاملہ کرنا اور سود پر راضی ہونا مستقل گناہ ہے اور سود کی رقم لینا مستقل گناہ ہے اور پھر اسے استعمال کرنا الگ گناہ ہے۔ نیز حرام رقم میں ثواب کی نیت سے کسی غریب کی مدد بھی نہیں کی جاسکتی، حرام رقم کسی عمل کے بغیر حاصل ہوئی ہو تو اسے مالک کو واپس کرنا ضروری ہوتاہے، اگر مالک کو لوٹانا ممکن نہ ہو یا وہ کسی ناجائز عمل کے عوض حاصل ہوئی ہو تو اسےبغیر ثواب کی نیت کے صدقہ کرنا لازم ہوتا ہے؛ تاکہ اس کے وبال سے جان چھوٹے۔
صورتِ مسئولہ میں سودی کاروبار سے رقم کمانا ناجائز ہے، نیز ثواب کی نیت سے کسی غریب کو بھی دینا درست نہیں ہے۔
عمدة القاري شرح صحيح البخاري (11 / 200):
"إن آيات الربا التي في آخر سورة البقرة مبينة لأحكامه وذامة لآكليه، فإن قلت: ليس في الحديث شيء يدل على كاتب الربا وشاهده؟ قلت: لما كانا معاونين على الأكل صارا كأنهما قائلان أيضا: إنما البيع مثل الربا، أو كانا راضيين بفعله، والرضى بالحرام حرام". فقط و الله أعلم
فتوی نمبر : 144111200951
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن