بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

شوہر کی اجازت کے بغیر نامحرم کو کھانا بھجوانا


سوال

کیا کوئی شادی شدہ عورت کسی نامحرم -جو صاحبِ  استطاعت بھی ہے- کو کھانا اپنے شوہر سے بغیر اجازت بھیج سکتی ہے، یہ سوچ کر کہ خالی برتن واپس نہیں کرنا چاہیے اور اس کو علم ہو کہ ایسا کرنے سے اس کا شوہر ناراض ہوگا؟

جواب

 جائز باتوں میں بیوی کے لیے شوہر کی اطاعت ضروری ہے اور اپنی اور اپنے شوہر کی عزت و ناموس کی حفاظت کرنا بھی ضروری ہے اور شوہر کی اجازت کے بغیر اس کے مال میں سے کسی کو دینا جائز نہیں ہے۔ ایسا کوئی کام کرنا جس سے شوہر ناراض ہو یا اپنی یا شوہر کی عزت پر کوئی آنچ آتی ہو بیوی کے لیے جائز نہیں ہے۔ جو عورت اپنے شوہر کی نافرمانی کرے اور اس کا دل دکھائے، اس کے بلانے پر نہ آئے اور شوہر ناراض ہوکر سو جائے تو ساری رات اُس عورت پر لعنت برستی ہے اور  وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے دور ہوجاتی ہے۔ اور سب سے اچھی عورت وہ ہے جو جائز باتوں میں اپنے شوہر کی اطاعت کرے اور اسے خوش رکھنے کی کوشش کرتی رہے۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ:

’’جب شوہر اپنی بیوی کو اپنے بستر پر بلائے اور وہ نہ آئے، اور شوہر اس پر ناراض ہوکر رات گزار دے، تو اس عورت پر فرشتے صبح تک لعنت کرتے رہتے ہیں۔‘‘ (بخاری)

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:

’’سب عورتوں سے اچھی وہ عورت ہے کہ جب شوہر اس کی طرف نظر کرے تو وہ اس کو خوش کردے اور جب وہ اس کو کوئی حکم دے تو وہ اس کی اطاعت کرے اور اپنی جان اور مال میں اس کو ناخوش کرکے اس کی مخالفت نہ کرے۔‘‘ (مسند احمد)

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم  نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے فرمایا:

’’کیا میں تمہیں ایسی بہترین چیز نہ بتادوں جسے انسان اپنے پاس رکھ کر خوش ہو؟ اور وہ نیک بخت عورت (بیوی) ہے کہ اس کی طرف مرد (شوہر) دیکھے تو اس کی طبیعت خوش ہو، جب وہ اسے کوئی حکم دے تو اس کی اطاعت کرے اور جب وہ گھر میں موجود نہ ہو تو اس کے بچوں اور مال و اسباب کی حفاظت کرے۔‘‘

(سنن ابی داؤد / مظاہر حق جدید)

لہٰذا بیوی کے لیے شوہر کے مال سے اس کی اجازت کے بغیر کسی بھی محرم یا نامحرم کو کھانا وغیرہ بھجوانا درست نہیں ہے۔ لیکن عموماً شوہر کی طرف سے بیوی کو کھانے پینے اور گھر کے استعمال کی معمولی چیزیں پڑوس میں بھیجنے یا کسی کو عاریت کے طور پر دینے کی اجازت ہوتی ہے، اس کے لیے ہر بار شوہر سے صراحتاً اجازت لینا ضروری نہیں ہوتا؛  لہٰذا بیوی کے لیے شوہر سے  اجازت لیے بغیر ہی کھانے پینے کی چیز پڑوسی خاتون یا محرم مردوں کو دینا جائز ہے۔ لیکن نامحرموں کو دینے سے اجتناب کرے، خصوصاً جب شوہر اس بات سے ناراض بھی ہوتا ہے جیسا کہ سوال میں ظاہر ہے۔ البتہ شوہر کی رضامندی اور پردے وغیرہ کی مکمل رعایت رکھتے ہوئے کسی نامحرم مثلاً فقیر وغیرہ کو کچھ دے  دے تو اس کی گنجائش ہے۔

نیز آپس میں  ہدایا اور کھانے پینے کی چیزوں کا تبادلہ شرعاً پسندیدہ ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک دوسرے کو ہدایا دینے کی ترغیب دی ہے اور اسے آپس کی محبت کی ذریعہ فرمایا ہے۔ نیز آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی عادت شریفہ یہ تھی کہ آپ کو جب کوئی ہدیہ دیتا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس کو بدلہ عنایت فرمایا کرتے تھے۔ لہٰذا پڑوس سے اگر کوئی کھانا وغیرہ بھیجے تو اس کے بدلہ میں بطور شکریہ و احسان انہیں بھی کھانا بھجوا سکتے ہیں۔

’’حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ہدیہ قبول فرماتے تھے اور (ہدیہ دینے والے کو) اس کا بدلہ بھی عنایت فرماتے تھے۔‘‘ (بخاری)

باقی "خالی برتن واپس نہیں کرنا چاہیے" کوئی شرعی حکم نہیں ہے۔ بلکہ دوسرے کے گھر سے آیا ہوا برتن بطور امانت ہوتا ہے اور مالک کی اجازت کے بغیر امانت کی چیز استعمال کرنا اور اس میں تصرف کرنا جائز نہیں ہوتا، اس لیے  اُصولی طور پر برتن خالی ہی واپس کرنا چاہیے۔ اور  اگر بدلے میں کوئی چیز بھجوانا چاہیں تو  دوسرے کے برتن میں دینے کے بجائے اپنے کسی برتن میں دینا زیادہ بہتر ہے۔  لیکن اگر کسی جگہ اسی برتن میں کھانا بھجوانے کا عرف ہو اور دلالتًا   بھیجنے والے  (یعنی جس نے پہلے کھانا بھیجا ہے، اس) کی اجازت معلوم ہو  اور وہ اسے برا نہ سمجھتے ہوں تو اسی برتن میں بھی کھانا بھجوا سکتے  ہیں۔

واضح رہے کہ  نامحرم مرد و عورت کا آپس میں تعلقات بڑھانا یا اس غرض سے ہدایا وغیرہ کا تبادلہ کرنا جائز نہیں ہے۔

حوالہ جات:

صحيح البخاري (ج:4، ص:116، ط: دار طوق النجاة):

’’عن أبي هريرة رضي الله عنه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إذا دعا الرجل امرأته إلى فراشه فأبت فبات غضبان عليها لعنتها الملائكة حتى تصبح».‘‘

مسند أحمد (ج:15، ص:360، ط: مؤسسة الرسالة):

’’عن أبي هريرة رضي الله عنه، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: سئل النبي صلى الله عليه وسلم: أي النساء خير؟ قال: "التي تسره إذا نظر إليها، وتطيعه إذا أمر، ولا تخالفه فيما يكره في نفسها، ولا في ماله".‘‘

مصنف ابن أبي شيبة (ج:3، ص:559، ط: مكتبة الرشد - الرياض):

’’عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «خير فائدة استفادها المسلم بعد الإسلام امرأة جميلة، تسره إذا نظر إليها وتطيعه إذا أمرها، وتحفظه إذا غاب عنها في ماله ونفسها».‘‘

سنن أبي داؤد (ج:2، ص:126، ط: المكتبة العصرية، صيدا - بيروت):

’’عن ابن عباس رضي الله عنهما، قال: لما نزلت هذه الآية: {والذين يكنزون الذهب والفضة} [التوبة: 34]، قال: كبر ذلك على المسلمين، فقال عمر رضي الله عنه: أنا أفرج عنكم، فانطلق، فقال: يا نبي الله! إنه كبر على أصحابك هذه الآية، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إن الله لم يفرض الزكاة، إلا ليطيب ما بقي من أموالكم، وإنما فرض المواريث لتكون لمن بعدكم»، فكبر عمر، ثم قال له: «ألا أخبرك بخير ما يكنز المرء؟ المرأة الصالحة، إذا نظر إليها سرته، وإذا أمرها أطاعته، وإذا غاب عنها حفظته».‘‘

صحيح البخاري (ج:3، ص:157، ط: دار طوق النجاة):

’’عن عائشة رضي الله عنها، قالت: «كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يقبل الهدية ويثيب عليها».‘‘

شعب الإيمان للبيهقي (ج:11، ص:301، ط: مكتبة الرشد للنشر والتوزيع بالرياض):

’’عن أبي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: تهادوا تحابوا.‘‘

البحر الرائق شرح كنز الدقائق (ج:8، ص:106، ط: دار الكتاب الإسلامي):

’’ولا بأس للمرأة أن تتصدق من بيت زوجها بالرغيف بدون إذن الزوج؛ لأنه مأذون فيه عادة.‘‘

المحيط البرهاني في الفقه النعماني (ج:5، ص:560، ط: دار الكتب العلمية):

’’وفي «فتاوى أهل سمرقند» : امرأة أعارت شيئاً بغير إذن الزوج؛ إن أعارت من متاع البيت مما يكون في أيديهن عادة فضاع فلا ضمان؛ لأنها أعارت بإذن الزوج.‘‘

الدر المختار و حاشية ابن عابدين (رد المحتار) (ج:2، ص:368، ط: دار الفكر-بيروت):

’’(خلطت) امرأة أمرها زوجها بأداء فطرته (حنطته بحنطتها بغير إذن الزوج ودفعت إلى فقير جاز عنها لا عنه) لما مر أن الانخلاط عند الإمام استهلاك يقطع حق صاحبه وعندهما لا يقطع فيجوز إن أجاز الزوج ظهيرية ولو بالعكس. قال في النهر: لم أره، ومقتضى ما مر جوازه عنهما بلا إجازتها.

قال في الرد:

(قوله: أمرها زوجها) أفاد أنها إن أدت عنه بدون إذنه لم يجزه، ط، عن أبي السعود (قوله: بغير إذن الزوج) أما لو بإذنه لا تملكه بالخلط فيجزئ عنه، ط، (قوله: لا عنه)؛ لأنه أمرها بالدفع من ماله وقد ملكته بالخلط بدون إذنه فكانت متبرعة ولزمها ضمان حنطته.

قلت: وينبغي تقييده بما إذا لم يجز الزوج ما فعلت أو لم توجد دلالة الإذن لما في الفصل التاسع من زكاة التتارخانية: دفع رجلان لرجل دراهم يتصدق بها عن زكاتهما فخلطها ثم دفعها ضمن إلا إذا جدد الإذن أو أجاز المالكان أو وجد دلالة الإذن بالخلط كما جرت العادة بالإذن من أرباب الحنطة بخلط ثمن الغلات، وكذا الطحان ضمن إذا خلط حنطة الناس إلا في موضع يكون مأذونا بالخلط عرفا اهـ ملخصا (قوله: لما مر) أي قبيل باب زكاة المال (قوله: فيجوز إن أجاز الزوج) أي يجوز عنه أيضا ولا حاجة إلى التقييد بالإجازة بعد قوله أولا أمرها زوجها ألا يقال إنه إشارة إلى الجواز وإن لم يوجد الأمر ابتداء لكن لا بد في جواز الإجازة من كون الحنطة قائمة في يد الفقير. ففي التتارخانية: سأل البقالي عمن تصدق بطعام الغير عن صدقة الفطر قال توقفت على إجازة المالك فتعتبر شرائطها من قيام العين ونحوه فإن لم يجز ضمن اهـ وفيها من الفصل التاسع أيضا عن شرح الطحاوي تصدق بماله عن رجل بلا أمره جاز عن نفسه وإن أجازه الرجل ولو بمال الرجل، فإن أجازه والمال قائم جاز عنه، ولو هالكا جاز عن المتطوع (قوله: ولو بالعكس) بأن أمرته بأداء فطرتها فخلط حنطتها بحنطته، ط، (قوله: ومقتضى ما مر) أي من قوله ولو أدى عنها بلا إذن أجزأ استحسانا للإذن عادة فإنه يدل على جواز أدائه عنها من ماله وإذا خلط حنطتها بحنطته في مسألتنا صارت ملكه فيجوز عنه وعنها، ومثله ما في التتارخانية وغيرهما رجل له أولاد وامرأة كال الحنطة لأجل كل واحد منهم حتى يعطي صدقة الفطر ثم جمع ودفع إلى الفقير بنيتهم يجوز عنها. اهـ.

قلت: لكن قد يقال: إن دفعها الحنطة إليه من مالها قرينة على أنها أرادت أداء الفطرة من مالها لتنال فضيلة صدقة وذلك ينافي إذنها له عادة بالدفع من ماله فينبغي عدم الجواز حيث أرادت ذلك.‘‘

البحر الرائق شرح كنز الدقائق (ج:8، ص:272، ط: دار الكتاب الإسلامي):

’’ولو رهن خاتما عند امرأة فجعلت خاتما فوق خاتم تضمن؛ لأن النساء يلبسن كذلك فيكون من باب الاستعمال بغير إذن المالك، وكذا الطيلسان إن لبسه لبسا معتادا ضمن، ولو وضعه على عنقه لم يضمن.‘‘

فقط و الله أعلم


فتوی نمبر : 144203200758

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں