میری شادی کو 18 سال ہو چکے ہیں۔ میرے شوہر کا میرے ساتھ شروع دن سے ہی رویہ ٹھیک نہیں تھا۔ وہ مجھ پر بہت ظلم کرتے، مجھے مارتے پیٹتے، یہاں تک کہ میرا چہرہ بھی بگاڑ دیا۔ ہر معمولی بات پر جھگڑتے اور بار بار کہتے کہ "میں تمہیں چھوڑ دوں گا"۔ وہ سعودی عرب میں مقیم ہیں، اور جب چھٹیوں پر آتے، تو بھی مجھ پر اور بچوں پر ظلم کرتے۔
تنگ آ کر میں نے تین سال پہلے ان سے علیحدگی کی خواہش ظاہر کی۔ ابتدا میں میرے والدین میرے ساتھ تھے، لیکن اب وہ بھی میرا ساتھ نہیں دے رہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہمیں اپنی عزت پیاری ہے۔
اب صورتحال یہ ہے کہ میرے شوہر نے ڈیڑھ مہینے سے ہمارا خرچ بھیجنا بند کر دیا ہے، اور میرے والد کوبھی منع کیا ہے کہ "میں اب خرچ پانی بند کر دوں گا"۔ وہ مجھے طلاق دینے کو تیار ہیں۔
براہِ کرم آپ رہنمائی فرمائیں کہ میرے اس مسئلے کا کیا شرعی حل ہے؟ اور کیا والدین کو ایسی صورتِ حال میں میرا ساتھ نہیں دینا چاہیے؟
واضح رہے کہ جس طرح بیوی پر شوہر کے حقوق کی بجا آوری لازم ہے، اسی طرح شوہر پر بھی بیوی کے حقوق کا خیال رکھنا اور ان کی رعایت کرنا شرعاً ضروری ہے۔ شریعت نے شوہر کو بیوی کے نان و نفقہ، رہائش، عزت، اور حسن سلوک جیسی ذمہ داریوں کا پابند بنایا ہے۔ ان میں کوتاہی کرنا محض اخلاقی جرم ہی نہیں بلکہ شرعی گناہ بھی ہے۔
شوہر پر لازم ہے کہ وہ اپنی حیثیت کے مطابق بیوی کے کھانے پینے، لباس، رہائش اور دیگر ضروریاتِ زندگی کا انتظام کرے۔ ساتھ ہی ساتھ اسے چاہیے کہ وہ بیوی کے ساتھ حسنِ معاشرت سے پیش آئے، ترش روئی، مار پیٹ، گالم گلوچ اور ظلم و زیادتی سے مکمل اجتناب کرے۔ ازدواجی زندگی محبت، حلم، صبر، اور فہم و تدبر سے چلائی جاتی ہے، نہ کہ سختی اور ظلم سے۔
صورتِ مسئولہ میں سائلہ کا بیان ہے کہ شوہر نہ صرف بداخلاقی اور مارپیٹ کرتا ہے بلکہ مالی حقوق کی ادائیگی سے بھی غافل ہے، بچوں کو بھی مارتا ہے اور اب خرچ دینا بند کر دیا ہے۔ یہ تمام افعال شریعت کی روشنی میں ظلم کے زمرے میں آتے ہیں۔
لہٰذا شوہر کو چاہیے کہ اپنے رویے پر سنجیدگی سے غور کرے، سچے دل سے توبہ کرے، بیوی کے ساتھ اچھا سلوک اختیار کرے، اور نان و نفقہ کی ادائیگی کا اہتمام کرے۔ رسولِ کریم ﷺ کا ارشاد ہے:"تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے لیے بہتر ہو، اور میں اپنے گھر والوں کے لیے تم سب سے بہتر ہوں۔"(سنن ترمذی)اور فرمایا:"مؤمنوں میں سب سے کامل ایمان والا وہ ہے جس کے اخلاق سب سے اچھے ہوں، اور تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو اپنی عورتوں کے ساتھ بہتر سلوک کرتا ہو۔"(سنن ترمذی)
سائلہ کو بھی چاہیے کہ حکمت، صبر اور نرمی کے ساتھ شوہر کی اصلاح کی کوشش کرتی رہے۔ اگر ممکن ہو تو خاندان کے بزرگوں کو درمیان میں ڈال کر اصلاح کی کوئی صورت نکالے تاکہ گھر ٹوٹنے سے بچ جائے۔ گھر کا بسا رہنا بہتر ہے، لیکن ظلم کے ساتھ گزارہ کرنا بھی لازم نہیں۔
تاہم شوہر پر بیوی کے حقوق کی ادائیگی فرض ہے، اور ظلم، مارپیٹ، نان نفقہ کی کٹوتی جیسے افعال شرعاً سخت گناہ ہیں۔ اگر اصلاح ممکن ہو تو ضرور کی جائے، بصورتِ دیگر بیوی کا علیحدگی اختیار کرنا اور شوہر سے طلاق لینا شرعاً جائز ہے۔ والدین کو چاہیے کہ بیٹی کی مدد کریں، نہ کہ اس پر دباؤ ڈالیں،اور اس کے ساتھ کھڑے ہوں، خصوصاً جب وہ مظلوم ہو۔ بیٹی کو تنہا چھوڑ دینا، یا اسے ظالم کے حوالے کرنا شرعاً درست رویہ نہیں۔
قرآن مجید میں ہے:
"وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ ۖ فَإِن كَرِهْتُمُوهُنَّ فَعَسَىٰ أَن تَكْرَهُوا شَيْئًا وَيَجْعَلَ اللَّهُ فِيهِ خَيْرًا كَثِيرًا"(سورۃ النساء: 19)
ترجمہ:"اور ان سے اچھا برتاؤ کرو، پھر اگر وہ تمہیں ناپسند ہوں تو ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو برا جانو اور اللہ اس میں بہت کچھ بھلائی پیدا کر دے۔"(از بیان القرآن)
بخاری شریف میں ہے:
"حدثنا عبد الله بن يوسف، أخبرنا مالك، عن أبي الزناد، عن الأعرج، عن أبي هريرة، أن رسول الله ﷺ قال:"استوصوا بالنساء خيرا فإن المرأة خلقت من ضلع، وإن أعوج شيء في الضلع أعلاه، فإن ذهبت تقيمه كسرته، وإن تركته لم يزل أعوج، فاستوصوا بالنساء خيرا."
ترجمہ:"عورتوں کے بارے میں نصیحت قبول کرو (یعنی ان کے ساتھ بھلائی کرو)، کیونکہ وہ پسلی سے پیدا کی گئی ہیں، اور سب سے زیادہ ٹیڑھا پن پسلی کے اوپر والے حصے میں ہوتا ہے۔ اگر تم اسے سیدھا کرنے کی کوشش کرو گے تو توڑ بیٹھو گے، اور اگر چھوڑ دو گے تو وہ ٹیڑھی ہی رہے گی، پس عورتوں کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔"
(کتاب االانبیاء،باب خلق آدم و ذرییتہ ،ج:1،ص:755،ط:مکتبہ انعامیہ)
مسلم شریف میں ہے:
"حدثنا قتيبة بن سعيد، حدثنا يعقوب يعني ابن عبد الرحمن القاري، عن أبي حازم، عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله ﷺ:"لا يفرك مؤمن مؤمنة، إن كره منها خلقا رضي منها آخر."
ترجمہ:"کوئی مومن کسی مومنہ (بیوی) سے نفرت نہ کرے، اگر اس کی کسی عادت کو ناپسند کرے تو کسی دوسری عادت کو پسند بھی کرے۔"
(کتاب :الرضاع،باب:الوصیۃ بالنساء،ج:2،ص:959،ط:البشری)
ترمذی شریف میں ہے:
"حدثنا قتيبة، حدثنا جعفر بن سليمان، عن أبي عمران الجوني، عن عبد الله بن الصامت، عن أبي ذر، قال: قال رسول الله ﷺ:"إن من أكمل المؤمنين إيمانا أحسنهم خلقا وألطفهم بأهله."
ترجمہ:"بے شک مومنوں میں سے کامل ایمان والا وہ ہے جو ان میں سب سے اچھے اخلاق والا ہو اور اپنے گھر والوں کے ساتھ نرمی برتنے والا ہو۔"
(ابواب الایمان عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم،باب:ما جاء فی استکمال الایمان و زیادتہ و نقصانہ،ج:2،ص:1079،ط:بشری)
فتاوی شامی میں ہے:
''وأما الطلاق، فإن الأصل فيه الحظر بمعنى أنه محظور إلا لعارض يبيحه ، وهو معنى قولهم: الأصل فيه الحظر ، والإباحة للحاجة إلى الخلاص ، فإذا كان بلا سبب أصلاً لم يكن فيه حاجة إلى الخلاص، بل يكون حمقاً وسفاهة رأي ومجرد كفران النعمة وإخلاص الإيذاء بها وبأهلها وأولادها ، ولهذا قالوا: إن سببه الحاجة إلى الخلاص عند تباين الأخلاق وعروض البغضاء الموجبة عدم إقامة حدود الله تعالى ، فليست الحاجة مختصة بالكبر والريبة ، كما قيل ، بل هي أعم كما اختاره في الفتح فحيث تجرد عن الحاجة المبيحة له شرعاً يبقى على أصله من الحظر ، ولهذا قال تعالى : ﴿فَإِنْ أَطَعْنَكُمْ فَلَا تَبْغُوْا عَلَيْهِنَّ سَبِيْلاً﴾ (النساء : 34) أي لا تطلبوا الفراق ، وعليه حديث: ’’ أبغض الحلال إلى الله عز وجل الطلاق‘‘. قال في الفتح: ويحمل لفظ المباح على ما أبيح في بعض الأوقات، أعني أوقات تحقق الحاجة المبيحة اھ .''
(کتاب الطلاق، ج:3، ص:228، ط: سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144611101001
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن