بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

صدقہ فطر نہ دینے کا حکم


سوال

اگر کوئی شخص صدقہ فطر  نمازِعید سے پہلے دینے کا انکار کرے اور کہے کہ آج تو نہیں پھر کبھی دے دوں گا ،یہ ضروری تو نہیں ہے، بس زکوٰۃ دے دی وہی بہت ہے، تو ایسے شخص کے بارے میں کیا حکم ہے کیا منکر زکوٰۃ کی طرح اس کو بھی کافر کہیں گے؟

جواب

واضح رہے کہ صدقہ فطر واجب ہے، اور واجب کا منکر  فاسق ہوتا ہے کافر نہیں،اور   صورتِ مسئولہ میں مذکور شخص نہ تو  صدقہ فطر کے وجوب کا منکر ہے، اور نہ ہی ادائیگی کا انکار کر رہا ہے  توفاسق بھی نہیں ہے،بلکہ تاخیر سے ادا کرنے کا کہ رہا ہے،اورتاخير سے  ادا كرنے سےنہ کافر  ہوگا نہ فاسق۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(و) اعلم أنه (لا يفتى بكفر مسلم أمكن حمل كلامه على محمل حسن"

(كتاب المرتد، ج:4، ص: 229، ط: سعيد)

کشف الاوھام میں ہے:

"وأما من صدر عنه ما يوجب كفره من الأمور التي هي معلومة من ‌ضروريات ‌الدين مثل عبادة الله سبحانه وتعالى"

(فصل، ص:47، ط: دار العاصمة)

فتاوی شامی میں ہے:

"والإجماع على الوجوب لا يدل على أن المراد بالفرض ما هو عرفنا أي ما يكفر جاحده؛ لأن ذاك إذا نقل الإجماع تواترا ليكون قطعيا أو كان من ‌ضروريات ‌الدين كالخمس لا إذا كان ظنيا، وقد صرحوا بأن منكر وجوبها لا يكفر، فكان المتيقن الوجوب بالمعنى العرفي عندنا اهـ ملخصا"

(باب صدقة الفطر، ج: 2، ص: 358،  ط: سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144409100958

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں