میں اپنی ساس سے الگ ہونا چاہتی ہوں ؛کیوں کہ وہ ہر بات پر چیختی ہیں، میں آگے سے انہیں کوئی جواب نہیں دیتی،میں نےاپنے شوہر کو بھی اس بارے میں کہا ہے لیکن وہ الگ ہونا نہیں چاہتے، آپ مجھے کوئی بہترین مشورہ دیں!
وا ضح رہے کہ سسرالی رشتہ حسنِ اخلاق، حسنِ معاشرت اور ہم دردی و ایثار کے جذبہ سے ہی چل سکتا ہے۔
لہذاصورت مسئولہ میں اگر سائلہ کی ساس کا رویہ سخت ہےتو سائلہ کوچاہیے کہ صبر و تحمل سے کام لے، یہ زیادہ پریشانی کی بات نہیں، انسانی نفسیات کے کچھ مراحل ہوتے ہیں، عموماً شادی بیاہ کے ابتدائی سالوں یا مہینوں میں یہ مسائل پیش آہی جاتے ہیں، ان مواقع پر اگر دوسرے کی نفسیات سمجھ کر اس سے برتاؤ کیا جائے تو حالات پر قابو پانا آسان ہوجاتاہے؛لہذااپنی ہمت کے موافق ساس کی خدمت کریں، اگر ان سے کوئی سخت یا ناروا بات بھی ہوجائے تو اس پر صبر کریں اوراللہ سے اجر کی امید رکھیں۔
تاہم اگرسائلہ میں اتنا حوصلہ نہیں کہ وہ ساس کے رویہّ کو برداشت کر سکے توشرعاً اس پر یہ لازم نہیں ہے کہ وہ شوہر کے والدین کے ساتھ ہی رہے، بلکہ شریعت نے عورت کو الگ رہائش کا حق دیاہے،لیکن علیحدہ رہائش اختیار کرنے میں شوہر کے والدین سے قطع تعلق کی نیت نہ ہو،اور الگ ہونے کے بعد بھی شوہر کے والدین کی ہر خدمت کو اپنی سعادت سمجھا جائے،علیحدہ رہائش فراہم کرنے کی ذمہ داری میں شریعت نےشوہر کی استطاعت اورحیثیت کوملحوظ رکھاہے ۔
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"تجب السكنى لها عليه في بيت خال عن أهله و أهلها إلا أن تختار ذلك كذا في العيني شرح الكنز."
(كتاب الطلاق، الباب السابع عشر في النفقات، الفصل الثاني في السكني، ج:1، ص:556، ط:دار الفكر)
الفقہ الاسلامی وادلتہ للزحیلی میں ہے:
"فإن كان للرجل أقارب فله عند الحنفية أن يسكن زوجته معهم إلا إذا ثبت أن الأقارب يؤذونها بقول أو فعل."
(القسم السادس: الأحوال الشخصیة، الباب الثالث حقوق الأولاد، الفصل الخامس:النفقات، ج:10، ص:7391، ط:دار الفکر)
فقط واللہ أعلم
فتوی نمبر : 144611101575
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن