بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

8 ذو الحجة 1446ھ 05 جون 2025 ء

دارالافتاء

 

روزے کی حالت میں ناک میں دوا ڈالنے کا حکم


سوال

بندہ کو کافی عرصہ سے یہ شکایت لاحق ہے کہ فنگل سائنس ( یعنی فطرتی سینس میں سوزش) کی وجہ سے ناک شدید بند ہو جاتی ہے، اور سانس لینے میں دشواری ہوتی ہے، پھر ڈاکٹر کی تجویز کردہ ڈراپ ٹپکانے سے طبیعت بحال ہوتی ہے، روزہ میں بھی یہی صورتحال در پیش ہے، کیا میں روزہ کی حالت میں یہ دوائی استعمال کر سکتا ہوں؟

جواب

واضح رہے کہ اگر روزے کی حالت میں ناک  میں دوا کے قطرے ٹپکائے  جائیں اور وہ ناک کی نرم ہڈی سے اوپر چلے جائیں تو اس سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے ، قضا لازم ہوتی ہے کفارہ لازم نہیں ہوتا، اس لیے روزے کی حالت میں ناک میں قطرے ٹپکانے سے احتیاط ضروری ہے۔ورنہ روزہ ٹوٹ جائے گا، اور اتنے روزوں کی قضا لازم ہو گی، لہذا صورتِ مسئولہ میں روزہ کی حالت میں سائل کو مذکورہ مرض کی وجہ سے سانس کی شدید تکلیف ہوجائے تو ایسی صورت میں مذکورہ ڈراپ ٹپکانے سے روزہ فاسد ہوجائے گا۔

"بدائع الصنائع "میں ہے:

"وما وصل إلی الجوف أو إلی الدماغ عن المخارق الأصلیة کالأنف والأذن والدبر بأن استعط أو احتقن أو أقطر في أذنه فوصل إلی الجوف أو إلی الدماغ فسد صومه، أما إذا وصل إلی الجوف فلاشك فیه، لوجود الأکل من حیث الصورة، وکذا إذا وصل إلی الدماغ؛ لأنه له منفذ إلی الجوف، فکان بمنزلة زاویة من زوایا الجوف".

(بدائع الصنائع ، ج:۲، ص: ۹۳، ط:دارالکتب العلمیة)

"فتاویٰ شامی ‘‘ میں ہے:

"أو احتقن أو استعط في أنفه شیئًا ... قضی فقط  ...".

وفي الرد:

"قلت: ولم یقیدوا الاحتقان والاستعاط والإقطار بالوصول إلی الجوف  لظهوره فیها وإلا فلابد منه حتی لو بقي السعوط في الأنف ولم یصل إلی الرأس لایفطر".

(فتاویٰ شامی، ج:۲،ص:۴۰۲، ط:سعید)

"المحیط البرہانی "میں ہے:

"وإذا استعط أو أقطر في أذنه إن کان شیئًا یتعلق به صلاح البدن نحو الدهن والدواء یفسد صومه من غیر کفارة وإن کان شیئًا لایتعلق به صلاح البدن کالماء قال مشایخنا: ینبغي أن لایفسد صومه إلا أنّ محمدًا رحمه اللّٰه تعالٰی لم یفصل بینما یتعلق به صلاح البدن وبینما لایتعلق".

(المحیط البرهاني، ج:۲، ص:۳۸۳، ط:دارالکتب العلمیة)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144611101978

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں